مشاجرات صحابہ تاریخ احتیاط اور اہل سنت کا موقف

مشاجرات صحابہ: ایک حساس موضوع

1. تاریخی واقعات کی حقیقت اور تعبیری مسائل

تاریخ کا تعبیری پہلو

تاریخ صرف ماضی کے واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مخصوص نقطہ نظر سے واقعات کو ترتیب دینے کا عمل ہے۔ نقطہ نظر بدلنے سے نہ صرف واقعات کا معنی بدل سکتا ہے بلکہ بعض اوقات واقعات خود بھی مختلف انداز میں ظاہر ہوتے ہیں۔

مابعد تجزیہ کاری کا مسئلہ

گزرے ہوئے واقعات پر موجودہ دور کے تجزیات اکثر "نتائج دیکھنے کے بعد” کیے جاتے ہیں، لیکن ان میں اس وقت کے افراد کے حالات اور ان کے فیصلوں کے محرکات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ماضی کے معاشرتی ڈھانچے کو سمجھنا آج کے افراد کے لیے ایک مشکل کام ہے۔

2. اہل سنت کا محتاط رویہ

اہل سنت والجماعت نے مشاجرات صحابہ کے حوالے سے درج ذیل وجوہات کی بنا پر خاموشی اختیار کی:

  • نامکمل اطلاعات: ممکن ہے کہ واقعات کی مکمل تفصیلات ہم تک نہ پہنچی ہوں یا کوئی اہم پہلو چھوٹ گیا ہو۔
  • روایات میں تحریف کا امکان: مختلف گروہوں نے اپنے مفادات کے لیے ان واقعات میں رنگ آمیزی کی ہو۔
  • نتائج سے متاثرہ رائے: جن نتائج کو ہم آج دیکھ کر رائے قائم کر رہے ہیں، وہ ان صحابہ کے پیش نظر نہ ہوں۔
  • معاشرتی اور زمانی فرق: ماضی کے معاشرتی نظام اور تعلقات کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔

3. مشاجرات کی حساسیت اور موجودہ مثالیں

حالات حاضرہ سے موازنہ

جیسے آج تحریک پاکستان، بنگلہ دیش کے قیام، لال مسجد، اور تحریک طالبان جیسے مسائل پر متضاد آراء موجود ہیں، اسی طرح ماضی کے واقعات بھی متنوع آراء کے حامل ہو سکتے ہیں۔

روایات کی غیر یقینی کیفیت

اگر حالیہ واقعات میں بھی لوگ مختلف باتیں بیان کرتے ہیں، تو ماضی کی روایات پر مکمل بھروسہ کیسے کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب راویوں کی غیرجانبداری کا مسئلہ ہو؟

4. مشاجرات صحابہ اور خیر القرون

وہ صحابہ کرام جو دین اسلام کے بنیادی ستون ہیں اور جن کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح تعریفیں موجود ہیں، ان کے درمیان پیش آنے والے اختلافات پر رائے قائم کرنا اہل سنت کے لیے مناسب نہیں سمجھا گیا۔

5. عدالتی اور انتظامی تقاضے: حضرت علی اور حضرت معاویہ کا فرق

حضرت علیؓ کی عدالتی سوچ

حضرت علیؓ کا رویہ ایک قاضی کی طرح تھا، جو انصاف کے تمام شرعی تقاضے پورے کرنے کے پابند تھے۔ اگر کسی پر الزام ثابت نہ ہو سکے، تو شرعی اصولوں کے مطابق سزا دینا ممکن نہ تھا۔

حضرت معاویہؓ کی انتظامی سوچ

حضرت معاویہؓ ایک بہترین منتظم تھے، اور ان کا رجحان انتظامی تقاضوں کی طرف زیادہ تھا۔ وہ ہر اس شخص کو کٹہرے میں لانے کے خواہاں تھے جس پر معمولی سا بھی شبہ ہو۔

اختلاف کی گنجائش

عدالتی اور انتظامی تقاضوں کے درمیان تضاد پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض مواقع پر انتظامی تقاضوں کو ترجیح دی۔

مثال: عبداللہ بن ابی کے قتل کا حضرت عمرؓ کا مشورہ اور کعبہ کی تعمیر نو کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی خواہش۔

6. فریقین کی فضیلت اور قرآنی بشارتیں

قرآنی وعدے اور شرائط

قرآنی آیات میں ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ فتح و نصرت کی بشارتیں دی گئی ہیں، لیکن ان بشارتوں کے لیے شرائط بھی ہیں:
"اِنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ”
"یقیناً زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔”
(الانبیاء: 105) اور
"فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ”
"پس بے شک اللہ فاسق قوم سے راضی نہیں ہوتا۔”
(التوبہ: 96)۔

اختلافات کا حق و باطل نہ ہونا

حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان اختلافات حق و باطل کی جنگ نہیں تھے، بلکہ انتظامی اور اجتہادی مسائل پر تھے۔

خیر القرون کے بعد کا دور

خیر القرون کے بعد امت میں اشرار اور فساق کا تناسب بڑھنے لگا، لیکن اس کے باوجود خیر القرون میں دی گئی بشارتوں کو تاویلات سے رد نہیں کیا جا سکتا۔

خلاصہ

مشاجرات صحابہ پر اہل سنت کے محتاط رویے کی بنیاد تاریخی واقعات کی پیچیدگی، ان کی روایات کی ناقابل اعتمادیت، اور صحابہ کرام کی عظمت ہے۔ عدالتی اور انتظامی تقاضوں میں فرق کے باوجود، فریقین کی فضیلت اور قرآنی بشارتوں کے بارے میں اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ یہ اختلافات حق و باطل کے درمیان نہیں تھے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے