ماڈرنسٹوں کے حربے
مسلم ماڈرنسٹ افراد اپنی مغربی فکری بنیادوں کو چھپانے کے لیے مختلف حربے اپناتے ہیں تاکہ خود کو اسلامی تاریخ سے جوڑا جا سکے۔ وہ کبھی اسلاف کے اختلافات کو اپنے اختلافات کے ساتھ جوڑتے ہیں، اور جب ان پر واضح کیا جائے کہ دونوں اختلافات میں بنیادی فرق ہے، تو یہ اپنی دلیل بدل کر معاصر علماء یا مذہبی گروہوں کی اسلام کاری کو بنیاد بنانے لگتے ہیں۔ مثلاً، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر ہم جمہوریت کو اسلامی رنگ دینے کے باعث ماڈرنسٹ کہلاتے ہیں، تو وہ علماء بھی ماڈرنسٹ ہیں جنہوں نے جمہوریت کی حمایت کی یا آزادیِ ہند کے لیے کانگریس یا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
ماڈرنسٹوں کی دلیل کا تجزیہ
یہ دلیل سطحی تجزیے کا نتیجہ ہے، جیسا کہ اسلاف کے اختلافات کو ماڈرنسٹ اختلافات کے برابر قرار دینا۔ اس دلیل کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہاں جمہوریت کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر بات کی جا رہی ہے۔
جمہوریت کے حق میں مختلف رویے
جمہوریت کی حمایت کے مختلف نظریات کو چار بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
➊ جمہوریت بحیثیت اسلامی نظام:
- کچھ لوگ (جیسے غامدی صاحب) یہ موقف رکھتے ہیں کہ اسلام کا حقیقی ریاستی نظام صرف جمہوریت ہے۔
- اس نظریے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گزشتہ چودہ سو سالوں میں اسلاف اسلام کی سیاسی تعلیمات کو سمجھنے میں ناکام رہے اور اس طرح اسلامی سیاسی فکر کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا جاتا ہے۔
➋ جمہوریت بحیثیت مثالی نظام:
- دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت اسلام کا مطلوبہ نظام ہے، مگر قبائلی دور میں اس کا نفاذ ممکن نہیں تھا، اس لیے ملوکیت کو وقتی طور پر قبول کیا گیا۔
- آج چونکہ حالات بدل گئے ہیں، اس لیے جمہوریت کے علاوہ کوئی دوسرا نظام قابلِ قبول نہیں۔
➌ جمہوریت بطور عرفی نظام:
- یہ نقطہ نظر کہتا ہے کہ اسلام نے کوئی خاص سیاسی نظام متعین نہیں کیا، اور لوگ اپنے دور کے عرف کے مطابق کوئی بھی نظام اپنا سکتے ہیں۔
- اس نظریے کے مطابق جمہوریت کی اجازت دی جا سکتی ہے، لیکن اسے شرعی حکم یا مثالی نظام نہیں کہا جا سکتا۔
➍ جمہوریت بطور حکمتِ عملی:
- جمہوریت کو اگرچہ غلط سمجھا جاتا ہے، مگر موجودہ زمینی حقائق میں اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
- یہ نظام سیاسی جدوجہد اور باطل کے خلاف اقدامات کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہے، اس لیے اس کے ذریعے خیر جمع کرنے اور باطل کا راستہ روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
تجزیہ: ماڈرنسٹ اور علماء کا فرق
درج بالا چار رویوں میں سے پہلے دو رویے خالصتاً ماڈرنسٹ ہیں، کیونکہ یہ تاریخی اسلام کا انکار کرتے ہیں اور ماڈرنزم کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ تیسرے اور چوتھے رویے کا تعلق حکمتِ عملی سے ہے، اور ان کے تحت تاریخی اسلامی تعلیمات کو غلط یا مردود قرار نہیں دیا جاتا۔
علماء کی اکثریت جمہوریت کے ساتھ تیسرے یا چوتھے رویے کی بنیاد پر تعامل کرتی ہے۔ ان ماڈرنسٹ حضرات کا خود کو علماء کے ساتھ جوڑنے یا علماء کو اپنی صف میں شامل کرنے کی کوشش بے بنیاد ہے۔
ماڈرنسٹ حضرات کے لیے سبق
ماڈرنسٹ حضرات کو دیانت داری کے ساتھ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ اسلامی تاریخ سے کٹے ہوئے لوگ ہیں اور ان کی فکری جڑیں مغرب میں ہیں۔ تاریخی فہمِ اسلام کو رد کرنے کے بعد خود کو اسلامی تاریخ کا وارث قرار دینا فکری دیوالیہ پن کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تضاد اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ایسی جدوجہد ان کے لیے صرف مایوسی اور پشیمانی کا سبب بنے گی۔