مسلمانوں کے مابین صلح کرانا جائز ہے
لغوی وضاحت: صلح سے مراد سلامتی اور درستی ہے ۔ یہ باب صلح (کرم ، نصر ، فتح) سے مصدر ہے۔ جس کا معنی درست ہونا ہے ۔ باب صَالَحَ يُصَالِحُ (مفاعلة) باہم صلح کرنا ، باب أَصْلَحَ يُصْلِحُ (إفعال) صلح کروانا ، باب الستَصْلَحَ يَسْتَصْلِحُ (استفعال) صلح چاہنا ۔
[المنجد: ص / 477 ، لسان العرب: 384/7]
اصطلاحی تعریف: ایسا عقد جسے اختلاف و افتراق اور تنازعہ و انتشار کے رفع کرنے کے لیے اختیار کیا جائے ۔
[نتائج الأفكار: 23/7 ، تبيين الحقائق: 29/5 ، الدر المختار: 493/4 ، مغني المحتاج: 177/2]
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [النساء: 128]
”صلح کرنے میں ان دونوں (میاں بیوی) پر کوئی حرج نہیں کیونکہ صلح ہی بہتر ہے ۔“
➋ لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ [النساء: 114]
”ان کے اکثر مصلحتی مشورے بے خبر ہیں ہاں! خیر اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے ۔ “
➌ وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا [الحجرات: 9]
”اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی صلح کرا دو ۔“
➍ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل قبا نے جھگڑا کیا حتی کہ ایک دوسرے کو پتھر مارنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذهبوا بنا نصلح بينهم
”ہمیں لے کر چلو ہم ان کے درمیان صلح کراتے ہیں ۔“
[بخاري: 2693 ، كتاب الصلح: باب قول الإمام لأصحابه اذهبوا بنا تصلح]
ایسی صلح جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دے جائز نہیں
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما
”مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا جائز ہے لیکن ایسی صلح جائز نہیں جو حلال کو حرام کر دے یا حرام کو حلال کر دے ۔“
[صحيح لغيره: إرواء الغليل: 142/5 – 146 ، 1303 ، ترمذي: 1352 ، كتاب الأحكام: باب ما ذكر عن رسول الله فى الصلح بين الناس ، ابن ماجة: 2353 ، دار قطني: 27/3 ، حاكم: 101/4 ، بيهقى: 65/6 ، امام ترمذیؒ نے اس حديث كو حسن قرار ديا هے۔ امام شوكانيؒ نے كثرت طرق كي وجه سے اس حديث كو كم از كم حسن درجه كي قرار ديا هے۔ نيل الأوطار: 644/3]
حرام کو حلال کرنے والی صلح مثلاً کسی لونڈی سے وطی کرنے پر مصالحت کرنا جس سے وطی حلال نہ ہو یا ایسا مال کھانے کے لیے صلح کرنا جسے کھانا حلال نہ ہو ۔
حلال کو حرام کرنے والی صلح مثلاً کوئی بیوی اپنے خاوند سے مصالحت کرے کہ وہ اسے طلاق نہ دے گا یا اس کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کرے گا ۔
[نيل الأوطار: 644/3]
معلوم و مجہول معاملے میں معلوم و مجہول طریقے سے صلح کرانا جائز ہے
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
مجہول معاملے کی معلوم کے ساتھ صلح:
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: دو آدی کوئی پرانا وراثت کا مسئلہ بغیر ثبوت کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنكم تختصمون إلى رسول الله وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بجحته من بعض وإنما أقضى بينكم على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار ياتي بها إسطاما فى عنقه يوم القيمة
”تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے باہم جھگڑتے ہو ، میں صرف ایک انسان ہوں اور شاید تمہارا بعض حجت پیش کرنے میں بعض سے زیادہ چرب زبان (فصیح اللسان ) ہو ۔ میں اسی بات پر فیصلہ کروں گا جسے میں سنوں گا تو جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق سے کچھ بھی فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں اور وہ اسے اپنی گردن میں آگ بھڑکانے والا آلہ لٹکائے ہوئے قیامت کے دن لائے گا ۔“ (یہ سننا تھا کہ ) دونوں روتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا حق میرے بھائی کے لیے ہے ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أما إذا قلتما فاذهبا فاقتسما ثم توخيا الحق ثم استهما ثـم ليحلل كل واحد منكما صاحبه
”جب تم نے یہ کہہ دیا ہے تو جاؤ (مال ) تقسیم کرو پھر حق ادا کرنے کا ارادہ کرو پھر قرعہ ڈالو پھر ہر ایک اپنے ساتھی کو معاف کر دے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3058 ، كتاب القضاء: باب فى قضاء القاضي إذا أخطا ، ضعيف ابو داود: 766 ، ابو داود: 3583 ، 3584 ، احمد: 320/6 ، ابن ابي شيبة: 233/7 ، ابو يعلى: 324/12 – 325 ، شرح معاني الآثار: 154/4 ، مشكل الآثار: 229/1 ، دارقطني: 238/4 ، حاكم: 95/4 ، طبراني كبير: 298/23 ، شرح السنة: 349/4 ، اس كي اصل صحيحين ميں هے ۔ بخاري: 2967 ، كتاب الحيل: باب إذا غصب جارية فزعم أنها ماتت فقضى بقيمته ، مسلم: 1713]
معلوم معاملے کی مجہول کے ساتھ صلح:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد جنگ اُحد میں شہید ہوئے جبکہ وفات کے وقت ان کے ذمہ قرض تھا تو قرض خواہوں نے مطالبے میں شدت اختیار کی ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ ان کے باغ کا پھل لے کر ان کے والد کو معاف کر دیں ۔ لیکن قرض خواہوں نے انکار کر دیا ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ (کا پھل) انہیں نہ دیا اور کہا کہ ہم صبح تمہارے پاس آئیں گے ۔ صبح ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور درختوں میں چکر لگا کر اس کے پھلوں میں برکت کی دعا کی پھر میں نے انہیں کاٹ کر مکمل ادائیگی کر دی لیکن اس کے پھل ابھی بھی ہمارے لیے باقی تھے ۔“
[بخاري: 2265 ، كتاب فى الإستقراض وأداء الديون ، باب إذا قضى دون حقه أو حلله فهو جائز]
محل شاہد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معلوم قرض کے بدلے مجہول پھل قبول کرنے کی سفارش کی ۔
قرعہ ڈالنے کا ثبوت
قرعہ کا ذکر قرآن کی دو آیات میں ہے:
➊ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ [آل عمران: 44]
”جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے (کہ مریم کی کون کفالت کرے گا؟ ) ۔“
➋ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ [الصافات: 141]
”پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہو گئے ۔“
پانچ احادیث میں قرعہ کا ذکر موجود ہے:
➊ گذشتہ حدیث سے پچھلی حدیث میں ۔
➋ أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد سفرا أقرع بين نسائه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے ۔“
[بخاري: 2404 ، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها: باب هبة المرأة لغير زوجها]
➌ أنه أقرع فى ستة مملوكين
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ غلاموں میں قرعہ ڈالا ۔“
[مسلم: 3154 ، كتاب الأيمان: باب من أعتق شركا له فى عبد]
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو يعلم الناس ما فى النداء والصف الأول ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه لاستهموا عليه
”اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف کا اجر معلوم ہو جائے تو پھر اگر انہیں یہ دونوں چیزیں صرف قرعہ ڈال کر ہی حاصل ہوں تو یہ قرعہ ڈال کر انہیں حاصل کریں ۔“
[بخارى: 570 ، كتاب الأذان: باب الاستهام فى الأذان]
➎ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے کفن کے لیے دو کپڑے لے کر آئیں ، ان کے ساتھ ہی ایک اور مقتول تھا (جسے کفن کی ضرورت تھی) تو دونوں کو ایک ایک کپڑا دے دیا گیا ۔ دونوں کپڑوں میں سے ایک زیادہ وسیع تھا ۔ اس پر صحابہ بیان کرتے ہیں کہ :
فأقرعنا عليهما
”ہم نے ان دونوں پر قرعہ ڈالا ۔“
پھر قرعہ میں جو کپڑا جس کے لیے نکلا اسی میں اسے کفن دے دیا گیا ۔“
[احمد: 165/1]
قتل کے معاملے میں دیت سے کم یا زیادہ مال پر صلح جائز ہے
گذشتہ تمام دلائل کا عموم اس پر شاہد ہے۔
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [النساء: 128]
”اور صلح میں ہی خیر ہے ۔“
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
الصلح جائز بين المسلمين
”مسلمانوں کے مابین صلح کرانا جائز ہے ۔“
[صحيح لغيره: إرواء الغليل: 1303 ، ترمذي: 1352 ، كتاب الأحكام: باب ما ذكر عن رسول الله فى الصلح بين الناس]
➌ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”جس نے عمداََ کسی کو قتل کیا اسے مقتولین کے اولیاء کے حوالے کر دیا جائے گا وہ اگر چاہیں تو اسے قتل کریں اور اگر چاہیں تو دیت لے لیں اور وہ (دیت) تیسں حقے ، تیسں جذعے اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہے اور یہ قتل عمد کی دیت ہے:
وما صولحوا عليه فهو لهم
”اور جس پر بھی مصالحت کی جائے گی وہ ان کے لیے ہے ۔“
اور یہ دیت میں تشدید ہے ۔
[حسن: إرواء الغليل: 259/7 ، 2199 ، ترمذي: 1387 ، كتاب الديات: باب ما جآء فى الدية كم هي من الابل ، ابن ماجة: 2626 ، ابو داود: 4506 ، نسائي: 42/8 ، احمد: 183/2]
اس حدیث میں محل شاہد یہ لفظ ہیں:
وما صولحوا عليه فهو لهم
جس پر بھی صلح ہو جائے درست ہے خواہ دیت سے کم قیمت پر یا زیادہ پر ۔
صلح درست ہے خواہ انکار کی صورت میں ہو
➊ گذشتہ تمام دلائل کا عموم اس پر بھی شاہد ہے ۔
➋ حضرت کعب رضی اللہ عنہ قرض کے معاملے میں دو آدمیوں کے مسجد میں جھگڑنے کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہوں کو نصف قرض کی معافی اور بقیہ کی جلدی ادائیگی کا اشارہ کیا ۔ جیسا کہ اُس روایت میں یہ لفظ ہیں:
قال نبي صلى الله عليه وسلم: ضع من دينك هذا و أو ما إليه أى الشطر قال لقد فعلت يا رسول الله ! قال قم فاقضه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرض خواہ سے ) فرمایا: اپنا نصف قرض چھوڑ دو ۔ اس نے کہا میں نے ایسا کر دیا اے اللہ کے رسول ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مقروض سے ) کہا اٹھو اور اسے (باقی قرض کی رقم فوراََ ) ادا کرو ۔“
[بخاري: 457 ، كتاب الصلاة: باب التقاضى والملازمة فى المسجد ، مسلم: 1558]
انکار کے معاملے میں صلح کی مختلف شکلیں ہیں:
➊ ایک شخص کسی دوسرے شخص پر سو دینار قرض کا دعوی کرے ، دوسرا شخص ان تمام کا ہی انکار کر دے پھر ان کے درمیان نصف مقدار پر مصالحت ہو جائے تو درست ہے کیونکہ صلح میں اعتبار باہمی رضامندی کا ہی ہے اور شریعت میں اس کی مانع کوئی چیز نہیں ۔
➋ اگر تنازعہ مقدار میں ہو یعنی ایک کہے تو نے مجھے پچاس دینار دینے ہیں دوسرا کہے نہیں بلکہ میرے ذمہ صرف پچیس دینار ہیں ۔ پھر اگر اسی پر مصالحت ہو جائے تو یہ بھی انکار کے معاملے میں صلح کی ہی ایک صورت ہے اور اسے شارع علیہ السلام نے جائز قرار دیا ہے جیسا کہ ابھی حدیث گزری ہے ۔
➌ اگر تنازع تعجیل و تاخیر میں ہو پھر کچھ حصے کی جلدی ادائیگی پر مصالحت ہو جائے تو یہ بھی انکار کے معاملے میں صلح کی ایک شکل ہے ۔
[الروضة الندية: 511/2]
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ ، احمدؒ ، جمہور ) یہ سب اسی کے قائل ہیں۔
(شافعیؒ ، ابن أبی لیلٰی) انکار کے معاملے میں صلح جائز نہیں اور ان کے دلائل یہ ہیں:
➊ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ [البقرة: 188]
”اپنے مالوں کو آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ ۔“
لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة من نفسه
”کسی مسلمان کا مال اس کے نفس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ۔“
[الأم: 257/3 ، الحاوى: 369/6 ، المبسوط: 174/14 ، تحفة العلماء: 420/3 ، الكافي: ص / 451 ، الخرش: 3/6 – 4 ، المغنى: 6/7 – 7 ، كشاف القناع: 397/3]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ جب انکار کے معاملے میں بھی صلح جائز ہو جائے تو اس کا مال باطل طریقے سے نہیں بلکہ اس کے نفس کی رضا مندی سے ہی حاصل کیا جاتا ہے ۔
[نيل الأوطار: 644/3]
صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے
حضرت اُم کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليـس الـكـذاب الذى يصلح بين الناس فينمي خيرا أو يقول خيرا
”وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح (کرانے کے لیے جھوٹ بولتا) ہے وہ تو خیر میں اضافہ کر رہا ہے یا بھلائی کی بات کہہ رہا ہے ۔“
[بخاري: 2692 ، كتاب الصلح: باب ليس الكاذب الذى يصلح بين الناس]