مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کا شرعی حکم
اسلامی شریعت کے مطابق، مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اور اس عمل کو کفر اور ارتداد کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں تمام علماء کا اجماع ہے کہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید اور حدیث میں اس بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔
➊ قرآن مجید کی رہنمائی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا، وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔” (سورۃ المائدہ: 51)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ یا کسی بھی کفار سے دوستی اور ان کی مدد سے منع کیا ہے، اور جس نے ان کی مدد کی، وہ ان کے ساتھ ہی شمار ہوگا۔
➋ علماء اور فقہاء کی رائے
اسلامی فقہاء جیسے آئمہ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور دیگر نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ:
- مسلمانوں کے دشمنوں کو کوئی ایسی چیز فروخت کرنا یا مہیا کرنا، جو ان کو مسلمانوں کے خلاف طاقت دے، مثلاً اسلحہ، گاڑیاں، یا دیگر آلات وغیرہ، حرام ہے۔
- حتیٰ کہ ایسے اشیاء بھی دینا جو جنگ میں معاون ہوں، جیسے کھانا، پانی، یا کوئی اور ساز و سامان، جائز نہیں ہے۔
➌ حدیث کی روشنی میں
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اہل حرب (یعنی جنگ کرنے والے کفار) کو اسلحہ بیچنا اجماع کے ساتھ حرام ہے” (المجموع)
اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے وقت اسلحہ فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ گناہ اور دشمنی میں مدد کرنا ہے” (اعلام الموقعین)
➍ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا:
"علماء اسلام کا اجماع ہے کہ جس نے مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کی اور کسی بھی طریقے سے ان کی معاونت کی، وہ کافر ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘جو ان سے دوستی کرے گا، وہ انہی میں سے ہوگا'” (فتاوی ابن باز، 1/274)
خلاصہ
➊ مسلمانوں کے خلاف کفار کی کسی بھی شکل میں مدد کرنا حرام ہے اور یہ کفر کے زمرے میں آتا ہے۔
➋ ایسا عمل تعاون علی الاثم والعدوان (گناہ اور زیادتی میں تعاون) کے تحت ممنوع ہے۔
➌ جس نے بھی مسلمانوں کے دشمنوں کو اسلحہ یا کسی اور چیز سے مدد فراہم کی، وہ اس گناہ میں برابر کا شریک ہے۔