مسجد کی عمارت پر امام کا اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہنے کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 09

سوال

مسجد کے جنوب میں مسجد کی ایک بڑی دوکان ہے، اس کو ایک چمار نے کرائے پر لے کر اس میں جوتوں کی فیکٹری لگا رکھی ہے، اس کے اوپر ایک تیسری منزل ہے اس میں وضو خانہ و غسل خانہ اور مؤذن کا حجرہ ہے، اس کے اوپر ایک تیسری منزل ہے، اس پر ایک مکان بنا ہوا ہے اس میں امام صاحب مع بیوی بچوں کے رہتے ہیں، ایک شخص امام صاحب کے سر ہو رہا ہے کہ آپ بیوی بچوں کو اس میں نہ رکھیں، اس جگہ گھر داری درست نہیں ہے، اما م صاحب فرماتے ہیں کہ یہ مسجد تھوڑی ہے کہ اس پر گھر داری منع ہو، لہٰذا آپ تحریر فرما دیں کہ آپ صاحب کا یہ کہنا درست ہے یا نہیں؟

الجواب

مسجد کی دوکان مسجد کے حکم سے خالی ہے جب چمار دکان کے اندر جوتے بناتا ہے اور اس کے اوپر غسل خانے میں لو گ نجاست دھوتے ہیں، تو اس کے اوپر امام صاحب گھر بار رکھ سکتے ہیں، ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔
محمد یونس ، مدرس مدرسہ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اہل حدیث گزٹ دہلی جلد نمبر ۸، ش نمبر ۲۰

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے