مسجد نبویﷺ کی تجدید و توسیع
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد مبارک (مسجد نبوی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اینٹوں کی بنی ہوئی تھی، کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں کی چھت تھی۔ اور کھجور کے تنوں کے ہی ستون تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں کچھ توسیع کی، لیکن اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کے مطابق ہی اینٹوں اور کھجور کے پتوں یا ٹہنیوں سے بنایا، اور کھجور کے تنوں کے ستون بنائے۔
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس میں بہت توسیع کی، اس کی دیوار منقش پتھروں اور چونے سے بنائی، اس کے ستون بھی منقش پتھروں کے بنائے۔اور اس کی چھت ساگوان کی لکڑی کی بنوائی۔ یہ بخاری شریف (540/1) کتاب الصلوة باب بنیان المسجد میں وارد شدہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ ایسے ہی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
فتح الباری 539/1، منتخب الاخبار 151/2/1
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ انہوں نے جب مسجد نبوی کی تجدید و توسیع کروائی تو فرمایا:
أكن الناس من المطر
میں لوگوں کو بارش سے بچاتا ہوں۔
إياك أن تحمر وتصفر فتفتن الناس
خبردار جو مسجد کو لال پیلا رنگ کرو، یہ لوگوں کے لئے باعث فتنہ ہوگا۔
اندازہ فرمائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب چار دانگ عالم کی دولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر ہو گئی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو عالیشان سے عالیشان مسجد بنوا سکتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی اینٹوں اور کھجور کے تنوں اور پتوں سے مسجد بنوائے رکھی۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اس میں سرمو فرق نہیں آنے دیا۔
پھر جب فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا تو کھجور کے پتوں اور تنوں کے بوسیدہ ہو جانے کی وجہ سے مسجد نبوی کی تجدید اور مسلمانوں کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے اس کی توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تو باوجود بے شمار فتوحات کے اور دور دراز کے ملکوں کے مال و اموال کے آنے کے، حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی مسجد نبوی کو انہی اشیاء سے بنوایا جن سے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوایا تھا۔
وہ چاہتے تو دنیا جہان کی دولتیں قدموں میں ڈھیر تھیں۔ اتنی عالیشان مسجد بنوا لیتے کہ دنیا دیکھتی، لیکن انہوں نے ایسا کرنا تو کجا، معمار کو لال، پیلے رنگ و روغن سے بھی سختی کے ساتھ منع فرما دیا تاکہ یہ رنگ و روغن اور یہ گل کاریاں کہیں لوگوں کے لئے باعث فتنہ نہ بن جائیں۔ یعنی نماز کے دوران کی توجہ نہ ہٹا دیں، اور ان کے خشوع و خضوع میں خارج نماز میں مخل نہ ہوں۔ اور شارح بخاری ابن بطال رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابوجہم کی بیل بوٹوں یا دھاریوں والی چادر انہیں واپس لوٹانے اور یہ فرمانے کہ:
إنها ألهتني عن صلاتي
فتح الباری 539/1، منتخب الاخبار 151/2/1
اس نے مجھے میری نماز سے بے دھیان کر دیا تھا۔
اس سے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھی تھی کہ مسجد کو نقش و نگار اور رنگارنگ بیل بوٹوں سے پاک رکھنا ہی ضروری ہے، اسی لئے انہوں نے ایسی مسجد تعمیر کروائی، اور معمار کو ایسا حکم فرمایا۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس بات کا احتمال بھی موجود ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خاص اس مسئلہ سے تعلق رکھنے والا کچھ علم ہو۔
چنانچہ سنن ابن ماجہ میں عمرو بن میمون کے طریق سے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
ما ساء عمل قوم قط إلا زخرفوا مساجدهم
سنن ابن ماجہ 741 حوالہ بالا
کوئی قوم جب برے افعال پر اتر آتی ہے تو وہ اپنی مسجدوں کو سجانا شروع کر دیتی ہے۔
اس حدیث کی سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں، سوائے جبارہ بن مغلس کے، ان کے بارے میں محدثین نے کلام کیا ہے۔
بہرحال جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو اس وقت بھی بیت المال میں بہت پیسہ تھا۔ تو انہوں نے بھی مسجد میں توسیع و تجدید کی، اور پہلے کی نسبت تعمیر مسجد میں استعمال ہونے والے مواد میں بھی کچھ تبدیلی کر دی، مثلاً پہلے مٹی کی اینٹوں سے دیواریں بنی ہوئی تھیں، انہوں نے وہ منقش پتھر سے بنوائیں۔ ایضاً پہلے تو مسجد کے ستون کھجور کے تنوں سے بنوائے گئے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ بھی منقش پتھر کے بنوائے۔ اور پہلے مسجد نبوی کی چھت بھی کھجور کی ٹہنیوں یا پتوں کی تھی، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہندوستان میں پائی جانے والی ساگوان کی لکڑی سے مسجد نبوی کی چھت کو بنوایا، جیسا کہ صحیح بخاری میں یہ بات وارد ہوئی ہے۔ اور بظاہر یہ کوئی زخرفہ یا بے جا خرچ کی تزئین و نقش نگاری بھی نہیں تھی۔ لیکن پہلے کی نسبت کچھ فرق واضح طور پر موجود تھا۔
اور چونکہ ایسا کرنے سے مسجد میں نبوی طرز سادگی کی بجائے زیب و زینت کا کچھ عنصر آ گیا تھا۔ لہذا قدسی نفوس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ کی طبائع نفیسہ پر اتنا بھی گراں گزرا۔ اور انہوں نے اس کی تجدید و توسیع پر نکیر کی تھی، اور اسے نظر استحسان سے بھی نہیں دیکھا تھا۔ اور الجواب الباهر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تحقیق کے مطابق اکثر صحابہ و تابعین نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی توسیع و تجدید سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
الجواب الباهر ضمن مجموع الفتاوی 418/27، مترجم اردو صفحہ 166
ایسے ہی فتح الباری میں بھی بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے عدم استحسان کا تذکرہ جلد اول ص 540 پر اشارہ اور جلد اول ہی ص 545 پر صراحتاً موجود ہے۔ اور حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بطور خاص مذکور ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عام زندگی کے معمولات کی طرح ہی تعمیر مسجد کے معاملہ میں بھی سادگی پسند تھے، اور وہ مساجد کے بناؤ سنگھار کو ناپسند کرتے تھے۔ مساجد کی زیب و زینت کا آغاز عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخری دور میں شروع ہوا۔ اور سب سے پہلے ولید بن عبد الملک نے مساجد میں زخرفہ اور نقش و نگار کئے اور فتنہ کھڑا ہونے کے ڈر سے اکثر اہل علم خاموش رہے۔
رخصت اور تقریب
اور بعض اہل علم نے مساجد کی سجاوٹ و زینت کرنے کی اجازت دی ہے، جن میں سے ہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ لیکن اس کے لئے بھی انہوں نے یہ شرائط عائد کی ہیں کہ:
اولاً: فخر و مباہات یا نمود و نمائش کے لئے نہیں، بلکہ یہ فعل خالص احترام و تعظیم مسجد کے داعیہ و جذبہ سے ہو۔
ثانیاً: یہ کہ مسجد کی سجاوٹ و زینت پر مسلمانوں کے بیت المال سے دولت صرف نہ کی جائے (جو کہ حوائج ضروریہ کے لئے ہوتی ہے، بلکہ اس پر اپنی جیب خاص سے پیسہ خرچ ہو) اور امام صاحب موصوف رحمہ اللہ کی رائے جیسا کہ ایک شارح بخاری ”البدر ابن المنیر “ کا قول بھی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں:
لما شيد الناس بيوتهم وزخرفوها ناسب أن يفعل ذلك بالمساجد صونا لها عن الاستهانة
بحوالہ فتح الباری 541/1. نیل الاوطار 150/2/1
جب لوگوں نے اپنے گھر اونچے اونچے بنا لئے، اور ان کی سجاوٹیں کر ڈالیں تو اب مناسب یہی ہے کہ مساجد کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے تا کہ ان کے وقار و احترام میں کمی نہ آنے پائے۔
اور بالکل اسی معنی و مفہوم پر مشتمل ایک فتویٰ بھی ہماری نظر سے گزرا ہے جو کہ چند ماہ پیشتر ہی ایک دینی پرچے میں شائع ہوا تھا۔ جس کے فتویٰ نویس غالباً مولانا حافظ عبدالستار الحماد تھے۔
جب کہ ابن المنیر کا قول نقل کر کے شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تعاقب کیا ہے، جو کہ حافظ الحماد کا تعاقب بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس میں صاحب فتح الباری لکھتے ہیں:
إن المنع إن كان للحق على اتباع السلف فى ترك الرفاهية، فهو كما قال، وإن كان لخشية شغل بال المصلي بالزخرفة فلا لبقاء العلة
فتح الباری ایضا ونیل الاوطار 150/2/1
اگر مساجد میں نقش و نگار کی ممانعت کا سبب سلف صالحین کے ترک تنعم کی اتباع کے نقطہ نظر سے تھا تو پھر ایسے ہی ہے جیسے موصوف نے کہا ہے۔ اور اگر اس کا سبب یہ تھا کہ یہ نمازی کی توجہ کھینچتے ہیں تو پھر ان کی بات صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ سبب تو آج بھی موجود ہے۔
اور اگر تھوڑی سی گہرائی کے ساتھ سوچا جائے تو صاحب فتح الباری کے تعاقب میں مذکور دونوں وجوہات یعنی ترک تنعم میں اتباع سلف صالحین اور نمازی کے مساجد میں بنائے جانے والے نقش و نگار میں کھو کر نماز سے بے توجہ ہو جانے سے بھی اس کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ بیل بوٹوں اور نقش و نگار کی ممانعت محض ترک تنعم میں اتباع سلف صالحین کے لئے نہیں تھی، بلکہ یہ درحقیقت دوسرے سبب کے لئے ہی تھی کہ ان سے نمازی کی توجہ متاثر ہوتی ہے، خشوع و خضوع میں فرق پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ نماز کے لئے خاص اہمیت رکھنے والی چیزیں ہیں۔ حتیٰ کہ نماز بلا خشوع کو” جسم بلا روح“ قرار دیا گیا ہے۔
”کہ جس نماز میں خشوع و خضوع نہ ہو وہ نماز ایسے ہی ہے، جیسے کوئی بے جان و بے روح لاش ہو۔“
نیل الاوطار 150/2/1
اور اس ممانعت کے دوسرے سبب کے لئے ہونے پر ان احادیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے جو ہم نے پچھلے اوراق میں ذکر کر دی ہیں۔ جن میں سے
➊ ایک تو وہ ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پردہ ہٹا دینے کا حکم فرمایا۔ اور
➋ دوسری روایت کی رو سے خود کھینچ کر اتار دیا۔ اور
➌ تیسری وہ حدیث ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوجہم کی چادر واپس لوٹانا مذکور ہوا ہے، جس میں بیل بوٹے یا دھاریاں تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے وہ چادر لوٹا دی کہ اس نے مجھے نماز میں بے دھیان کر دیا ہے۔
ان تینوں احادیث سے اور خصوصاً ان میں جس میں یہ مذکور ہے کہ نماز میں اس پردے کی تصویریں میرے سامنے آتی رہی ہیں۔ ان سے یہ دلیل لی جا سکتی ہے کہ یہ ممانعت نماز میں بےتو جہگی کے انسداد کے لئے ہے، عیش و عشرت ترک کرنے میں سلف صالحین کے اتباع کی نظر سے نہیں۔
مساجد میں زخرفہ یا نقش و نگار کرنے کی ممانعت کے دلائل تو ذکر کر دیئے گئے ہیں۔ اور یہی قول قوی و راجح بھی ہے۔ جب کہ جواز کے قائلین نے بھی بعض دلائل پیش کئے ہیں، لیکن وہ بڑے بے جان سے ہیں۔
حتیٰ کہ امام شوکانی نے تو ان کے دلائل کے بارے میں ”نیل الاوطار “ میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مویشیوں کی منڈی میں تو شاید ایسے دلائل کوئی کام دے جائیں لیکن علم کے میدان میں وہ کسی کام کے نہیں ہیں۔
نیل الاوطار 151/2/1
جب کہ ان کی پوزیشن یہ ہے، تو پھر انہیں ذکر کر کے بات کو طول کیوں دیا جائے۔ ہاں ایک بات جو یہاں کہنا ضروری ہے۔ اور اس سے ویسے بھی مانعین اور قائلین دونوں کے مابین کچھ تقریب و موافقت اور مطابقت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور وہ یوں کہ مسجد کو فخر و مباہات کا ذریعہ بنائے بغیر حسب ضرورت جتنی بڑی مسجد بھی بنانا چاہیں بنا لیں۔ دور حاضر کی عمدہ تعمیرات کے انداز سے خوبصورت بھی بنالیں ۔ تا کہ بڑی بڑی اور عمدہ قسم کی بنی ہوئی عمارتوں کے مقابلہ میں وہ مساجد کچھ کمتر محسوس نہ ہوں۔
البتہ ان کی محرابوں یا دیواروں کو صرف ایک ہی رنگ کریں جو کہ سفید یا کریم ہو، اور ان پر اور چھتوں پر کہیں بھی بیل بوٹے نہ بنائیں، گل کاریاں نہ کریں۔ بلکہ زرکاری و گل کاری کے بغیر ہی سادہ انداز سے رہنے دیں۔ اس طرح مسجد خوبصورت بھی بنے گی، سادہ بھی ہوگی اور ممانعت کی حدود سے بھی نکل جائے گی۔ اس سلسلہ میں ان خلیجی ممالک کی مساجد پر ہمیں اطمینان ہے۔ كثر الله امثالها فى بلادنا .. آمين