مسجد میں کھانے پینے کا شرعی حکم صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

مسجد میں کھانا پینا

اور کچھ امور ایسے بھی قابلِ ذکر ہیں، جن کے بارے میں انسان کو بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ تقدس و احترامِ مسجد کے منافی ہوں گے۔ اور شرعاً ممنوع بھی، جب کہ در حقیقت ایسا نہیں۔ بلکہ وہ شرعاً جائز ہوتے ہیں اور بعض شرائط و آداب کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور ان جائز امور میں سے ہی ایک مسجد میں کھانا پینا بھی ہے۔ بشرطیکہ آدابِ مسجد کا خیال رکھا جائے۔ اور اسے ہر قسم کی غلاظت سے اور کھانے کے اجزاء سے محفوظ رکھا جائے۔
اور اس طرح با آسانی ممکن ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر اگر کبھی کھانے کی نوبت آجائے تو کسی کونے میں کوئی دستر خوان بچھا کر اس پر کھانا رکھیں اور احتیاط کے ساتھ کھا لیں۔ مسجد کو کھانے کے اجزاء اور سالن وغیرہ سے محفوظ رکھیں تاکہ وہ بعد میں چیونٹیوں کی آمد کا سبب نہ بنے۔ اس طرح کی احتیاط پر عمل کر کے مسجد میں بیٹھ کر کھانا کھایا جائے۔ اور یہ محض بوقتِ ضرورت تو جائز ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسجد کو ہوٹل ہی بنا لیں۔ گرمی کے موسم میں کہیں سے پارسل کھانا لیا اور مسجد کی ایئر کنڈیشنڈ فضا میں جا بیٹھے اور دستر خوان بچھا کر کھانے لگے۔ ایسا نہیں بلکہ یہ محض بے گھر اور مسافر قسم کے لوگوں کے لئے اور کبھی کبھار ہے۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، مسند احمد اور زوائد المسند لابن الامام احمد میں حضرت عبداللہ بن حارث بن جزو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
كنا ناكل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فى المسجد الحب واللحم ثم نصلي ولا نتوضأ
ابن ماجہ 3300 – مسند احمد 1904/4 – بحوالہ الاحسان حاشیہ 540/4 – المنتقى مع نیل 230/2/1 – الاحسان 540/4 – الموارد 223
ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود میں مسجد میں بیٹھ کر گوشت روٹی کھالیا کرتے تھے۔ اور پھر از سرِ نو وضو کیے بغیر نماز پڑھ لیتے تھے۔ (یعنی پہلے وضو سے ہی)
اسی طرح سنن ابن ماجہ، شمائل ترمذی اور مسند احمد میں ابن لہیعہ کے طریق سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔جس میں حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کے الفاظ یوں نقل کیے گئے ہیں:
أكلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى المسجد لحما قد شوي، فمسحنا أيدينا بالحصباء ثم قمنا نصلي ولم نتوضأ
ابن ماجہ 3311 – مسند احمد و زوائده 4/190 – بحوالہ تحقیق الاحسان 540/4 – مختصر شمائل المحمدیہ 139
ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر بھنا ہوا گوشت کھایا، کنکریوں سے ہاتھ پونچھ لیے اور از سرِ نو وضو کیے بغیر نماز کے لئے اٹھ گئے۔
اور علامہ بوصیری نے مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ میں کہا ہے کہ ابن لہیعہ کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے۔ جبکہ شیخ الارناؤوط نے الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان (540/4) کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس طریق سے تو یہ سند ضعیف ہے۔ لیکن اس سے پہلا طریق اسے تقویت دے رہا ہے۔
اور یاد رہے کہ بوقتِ ضرورت مسجد میں کھانا کھانے کے جواز کا نفسِ مسئلہ تو ان دونوں احادیث کے علاوہ بھی متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ جن میں سب سے اہم حدیث وہ ہے۔ جو صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث میں موجود ہے۔ جس میں اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے مسجد نبوی میں ہی مستقل سکونت اختیار کیے ہوئے کا ذکر آیا ہے۔
بخاری علامات النبوة والصلوة 536/1
اور ظاہر ہے کہ وہ اپنی جگہ پر ہی کھاتے پیتے بھی تھے۔ کیونکہ ان کے کوئی گھر اور اہل و عیال نہیں تھے بلکہ وہ فقراء تھے۔ اسی طرح صحیح بخاری و مسلم، ابی عوانہ اور طبرانی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عکل اور عرینہ کے سات آدمیوں کے مدینہ آنے اور اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہنے کا واقعہ ہے۔
المنتقى 162/2/1048/1/1
وہ لوگ بھی اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہی مسجد نبوی میں رہے، اور وہیں کھاتے پیتے رہے۔ اسی طرح صحیح بخاری و مسلم کی وہ حدیث بھی ہے، جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک دستہ روانہ فرمایا جو (یمامہ کے حاکم اور) بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال کو پکڑ کر لایا اور انہوں نے اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن تک اس کے پاس تشریف لاتے اور اس سے گفتگو فرماتے۔ وہ سخت وست، بلکہ تلخ و درشت باتیں کرتا رہا اور آخر تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول دینے کا حکم فرمایا۔ اور بس اس حسنِ اخلاق کے نتیجے میں وہ مسلمان ہو گیا۔ اس واقعہ اسلام کی تفصیل صحیح بخاری و فتح الباری (88/8، 718 المغازی) پر دیکھی جا سکتی ہے۔
بخاری مع الفتح 87/8، 88 – مسلم مع نووی 87/12/6 تا 90
نیچے اس واقعہ سے مسجد میں کھانا کھانے کے جواز پر یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ تین دن تک قیدی کی حیثیت سے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ بندھے رہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحمتہ للعالمین سے قطعاً بعید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کھانا نہ پہنچاتے ہوں۔ اور ظاہر ہے کہ وہ مسجد میں ہوتے ہوئے ہی کھانا کھایا کرتے تھے۔
انظر نیل الاوطار 163/2/1
ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک واقعہ مروی ہے کہ جس میں وہ بیان فرماتی ہیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ایک قریشی مشرک حبان بن عرقہ کے تیر سے زخمی ہو گئے، آگے فرماتی ہیں:
فضرب عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم خيمة فى المسجد ليعوده من قريب
بخاری مع الفتح 556/1 – مسلم مع نووی 94/12/6
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مسجد نبوی میں خیمہ نصب کروایا، تاکہ قریب سے ان کی عیادت اور بیمار پرسی کر سکیں۔
ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم، ابن ماجہ، ابن خزیمہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ابن ماجہ اور ابن خزیمہ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی مسجد نبوی کی صفائی کرنے والی ایک عورت کا واقعہ بھی ہے۔
بخاری مع الفتح حدیث 460 و 458 – صحیح ترغیب 112/1 – مسلم مع نووی 25/7/4، 26 – ابن ماجہ 1533، 1527
اس عورت کے لئے بھی مسجد نبوی میں خیمہ لگایا گیا تھا، اور ان دونوں کے واقعات سے بھی مسجد میں کھانا کھانے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ خیمے میں رہنا اس جگہ کھانا کھانے کو مستلزم ہے۔
اسی طرح وفدِ ثقیف کی آمد کا واقعہ صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور مسند احمد میں وارد ہوا ہے۔ جس میں یہ بھی مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد میں رکھا تھا۔
نیل الاوطار 163/2/1 – المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث 264/7
اور وفد کو کھانا وغیرہ مسجد میں ہی کھلایا جاتا تھا۔
غرض مسجد میں کھانا کھانے کے جواز کا پتہ دینے والی احادیث بکثرت ہیں۔ البتہ مسجد کی نظافت و صفائی، تقدس و احترام کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ امام مالک سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ ایک دو لقمے کھانے کے جواز کے قائل تھے، زیادہ کے نہیں۔ جیسا کہ علامہ زرکشی نے ”اعلام المساجد“ (ص 329) میں نقل کیا ہے۔ تو ان کا یہ قول بھی تقدس و احترام کے پیشِ نظر ہی ہوگا۔ ورنہ احادیث سے ثابت جواز کی مخالفت تو ان کا مقصود ہرگز نہیں ہو سکتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے