مسجد میں سونا اور بعض دیگر امور
ان احادیث میں کھانا کھانے کا ذکر تو ضمناً ہے۔ جب کہ ایک دوسرا مسئلہ اصلاً بھی مذکور ہے۔ اور وہ ہے بوقتِ ضرورت مسجد میں سونے کا جواز۔
➊ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم والی اور بعد والی دوسری حدیث سے واضح طور پر یہ جواز بھی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی سکونت ہی مسجد میں تھی۔ اور
➋ دوسری حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور مسجد کی صفائی کرنے والی
➌ نیک خاتون رضی اللہ عنہا کے مسجد میں خیمے تھے۔
➍ اور عکل و عرینہ کے (سات) افراد بھی صفہ میں ہی آکر رہے تھے۔ اور ان پر مستزاد
➎ پانچویں حدیث وہ ہے، جو صحیح بخاری، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، شرح السنہ بغوی، سنن کبریٰ بیہقی، ابن حبان اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں متعدد طرق سے مروی ہے۔ کہ جس میں نافع، سالم اور حمزہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بتایا:
إنه كان ينام وهو شاب أعزب لا أهل له فى مسجد النبى صلى الله عليه وسلم
بخاری 535/1 – صحیح ابی داؤد 368 – صحیح ترمذی 264 – صحیح نسائی 697 – ابن ماجہ 751 – شرح السنہ 292/2، 379 – ابن خزیمہ 286/2 – مسند احمد 70/2، 71 – بیہقی 492/2 – بحوالہ الاحسان 537/4، 838 – المنتقى مع نیل 228/2/1 – طبع الریاض
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ابھی اہل و عیال والے نہیں بلکہ غیر شادی شدہ تھے۔
اور مسند احمد کے الفاظ ہیں:
كنا فى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم ننام فى المسجد ونقيل فيه ونحن شاب
مسند احمد 70/2، 71 – بحوالہ المنتقى و تحقیق الاحسان
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں ہم مسجد میں دوپہر اور رات کو سویا کرتے تھے، اور ہم جوان تھے۔
➏ اور چھٹی حدیث صحیح بخاری و طبرانی اور دیگر کتب میں ہے۔ جس میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، تو دیکھا کہ گھر میں ان کے شوہر نامدار حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں ہیں۔ پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ میری اور ان کے درمیان کچھ گرمی سردی ہو گئی ہے۔ اور وہ ناراض ہو کر گھر سے نکل گئے ہیں۔ اور آج دوپہر گھر پر قیلولہ (دوپہر کا معمولی سا سونا) بھی نہیں کیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھیجا کہ جاؤ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ تو اس نے واپس آکر بتایا:
هو فى المسجد راقد
وہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف لے گئے۔ اور دیکھا کہ وہ اس طرح لیٹے ہیں کہ ان کے ایک پہلو سے چادر ہٹی ہوئی ہے، اور انہیں مٹی لگی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مٹی کو جھاڑنا شروع کر دیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ پیار سے فرمانے لگے:
قم يا أبا تراب، قم يا أبا تراب
صحیح بخاری و فتح الباری 535/1
اے مٹی والے اٹھو، اے مٹی والے اٹھو۔
اس حدیث سے بھی بوقتِ ضرورت مسجد میں سونے کے جواز کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن بقول شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ دوپہر کے قیلولہ اور رات کی نیند میں فرق کرنا ممکن ہے۔ اور چونکہ مسجد میں سونے کے عام جواز پر صرف یہی حدیث دال ہے۔ لہذا جب یہ فرق مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رات کے سونے کی صریح دلیل کوئی نہ ہوئی، جو جواز کے حکم کا پتہ دے۔ لہذا ان احادیث کے پیشِ نظر تبلیغی جماعت والوں کے رویہ پر اعتراض تو نہیں، البتہ نظر ثانی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔
غرض ان احادیث کی بناء پر ہی جمہور اہل علم مسجد میں سونے کے جواز کے قائل ہیں۔ البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مسجد میں سونے کی کراہت کا قول مروی ہے۔ سوائے اس کے جو محض سونے کے لئے نہیں، نماز کے لئے آئے اور سو بھی لیا تو حرج نہیں۔ کیونکہ امام بغوی نے شرح السنہ میں ان کا قول تعلیقاً نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے:
لا تتخذوه بيتا ومقيلا
شرح السنہ 739/2
مسجد کو قیلولہ (یعنی دوپہر کے سونے) اور رات کے سونے کی جگہ نہ بناؤ (سوائے نمازی کے)۔
جب کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مطلقاً مسجد میں سونے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جس کا اپنا گھر ٹھکانہ موجود ہو تو مسجد میں سونا مکروہ ہے۔ اور جس کا گھر نہ ہو اس کے لئے مباح ہے۔
فتح الباری 535/1۔ نیل الاوطار 228/2/1۔ شرح السنہ 739/2