(سید صفی اللہ شاہ، گڑھی نواب، بٹگرام)
سوال:
ہم مشاہدہ کرتے آئے ہیں کہ مساجد میں پہلی جماعت کے بعد دوسری جماعت بھی کی جاتی ہے، لیکن مسجد بلال، ماڑی پور میں ایک نوشتہ دیکھا جس میں لکھا ہے کہ مسجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ براہِ کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازِ جماعت کی فضیلت
رسول اللہ ﷺ نے نمازِ جماعت کی بہت زیادہ فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ جماعت ترک کرنے پر سخت وعید بھی آئی ہے۔
"منافقین پر سب سے زیادہ دشوار عشاء اور فجر کی نماز ہے۔ اگر ان لوگوں کو ان نمازوں کا ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ضرور آئیں گے، چاہے گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایک شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں، پھر چند لوگوں کے ساتھ لکڑیوں کا گٹھا لے کر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔”
(صحیح مسلم)
اگر کسی شرعی عذر کے باعث جماعت رہ جائے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے جماعت کے اجر کا انتظام فرمایا۔
جماعتِ ثانیہ کا جواز: احادیث سے دلائل
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص جماعت کے بعد آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"کون ہے جو اس کے ساتھ (جماعت کے ثواب کی) تجارت کرے؟”
تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ نفل کی نیت سے جماعت کی۔
(سنن ترمذی)
ایک اور موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو تنہا نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:
"کوئی شخص ہے جو اس پر (جماعت کے ثواب کا) صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟”
(سنن ابی داؤد)
فقہائے احناف کی آراء
فتاویٰ عالمگیری:
ایسی مسجد جہاں امام مقرر ہو اور وہاں باقاعدگی سے جماعت ہوتی ہو، اذان و اقامت کے ساتھ دوسری جماعت جائز نہیں۔
البتہ بغیر اذان کے جماعت ہو تو دوسری جماعت جائز ہے، جیسے شارع عام کی مسجد۔
علامہ علاء الدین حصکفی:
محلہ کی مسجد میں اذان و اقامت کے ساتھ جماعتِ ثانیہ مکروہ ہے۔
مگر شارع عام کی مسجد یا جہاں امام و مؤذن مقرر نہ ہوں، وہاں مکروہ نہیں۔
علامہ ابن عابدین شامی:
اگر پہلی جماعت غیر محلّہ والوں نے کی ہو یا آہستہ اذان دی گئی ہو تو دوسری جماعت مکروہ نہیں۔
شارع عام کی مسجد میں بالاتفاق جماعتِ ثانیہ جائز ہے۔
اذان کے اعادہ کے ساتھ جماعت مکروہ، اور بلا اعادہ جائز ہے، بشرطیکہ جماعت اولیٰ کی ہیئت پر نہ ہو۔
اگر محراب سے ہٹ کر نماز پڑھی جائے تو ہیئت تبدیل ہو جاتی ہے اور کراہت ختم ہو جاتی ہے۔
امام احمد رضا قادریؒ کی تحقیق
آپؒ نے اس مسئلے پر ایک مستقل رسالہ لکھا اور 12 ممکنہ صورتیں اور ان کے احکام بیان کیے، جن میں چند اہم درج ذیل ہیں:
➊ شارع عام کی مسجد:
جہاں قافلے آتے جاتے ہوں، وہاں اذان و اقامت کے ساتھ تکرارِ جماعت بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔
➋ اجنبی افراد نے پہلے جماعت کی ہو:
اگر کچھ مسافر اذان و اقامت کے ساتھ جماعت کرکے چلے جائیں، تو اہل محلہ دوبارہ اذان و اقامت کے ساتھ جماعت کرسکتے ہیں۔
➌ پہلی جماعت اذان کے بغیر ہو:
اہل محلہ دوبارہ اذان و اقامت کے ساتھ جماعت کرسکتے ہیں۔
➍ آہستہ اذان دی گئی ہو:
چونکہ اصل مقصد اعلان عام ہے، لہٰذا دوبارہ اذان دے کر جماعت جائز ہے۔
➎ امام غیر مسلک سے ہو:
مثلاً شافعی امام ہو جو وضو کے متعلق ایسے مسائل میں احناف کی رعایت نہ رکھتا ہو، جیسے:
پچھنا لگوانے کے بعد وضو نہ کرنا
خون نکلنے پر وضو نہ کرنا
نماز میں قہقہہ سے وضو نہ ٹوٹنا
مسح صرف چند بالوں پر کرنا
تو ایسی صورت میں احناف جماعتِ ثانیہ کرسکتے ہیں۔
➏ امام کی قراءت نماز کو فاسد کرنے والی ہو:
تو جماعتِ ثانیہ جائز ہے۔
➐ امام گستاخِ الٰہ یا رسالت ہو:
تو اس کی اقتداء جائز نہیں، اور جماعتِ ثانیہ کی اجازت ہے۔
➑ محلہ میں پہلے ہی مناسب امام کے ساتھ مکمل سنت طریقے سے جماعت ہو چکی ہو:
اس صورت میں دوسری اذان کے ساتھ جماعتِ ثانیہ مکروہ اور بدعت ہے۔
(البحر الرائق، مجمع البحرین، زین)
جماعتِ ثانیہ پر فقہائے کرام کی تفصیل کا مقصد
یہ تفصیلات اس لیے بیان کی گئی ہیں تاکہ لوگ بلا جواز دوسری جماعت کو فتنہ و اختلاف کا ذریعہ نہ بنائیں۔
خلاصہ و تبصرہ: مفتی منیب الرحمٰن کے جواب پر تبصرہ
آپ کا سوال اور مفتی منیب الرحمٰن کا 23 فروری 2007ء کو روزنامہ ایکسپریس میں شائع شدہ جواب پڑھا، جس کا خلاصہ:
چند اہم نکات:
❀ نماز باجماعت کی فضیلت پر سب کا اتفاق ہے۔
❀ جماعت رہ جائے تو دوسری جماعت کا اجر ہے
(سنن ترمذی، سنن ابی داؤد)
❀ احناف کے نزدیک بعض صورتوں میں جماعتِ ثانیہ جائز ہے۔
❀ فقہ حنفی و بریلوی میں دوسری جماعت بعض اوقات مکروہ قرار دی گئی ہے۔
❀ شارع عام کی مسجد میں تکرارِ جماعت جائز ہے۔
تنقیدی نکات:
❀ فقہ حنفی یا بریلوی اقوال کو شرعی حجت ماننا ضروری نہیں۔
❀ صحیح حدیث
(سنن ابی داؤد: 554)
سے ثابت ہوتا ہے کہ:
"أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ؟”
❀ امام ترمذیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام اسحاق بن راہویہؒ سمیت کئی ائمہ کے نزدیک دوسری جماعت جائز ہے۔
❀ عملِ صحابہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فجر کے بعد دوبارہ اذان و اقامت کروا کر جماعت کی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، ج2، ص321، ح7093)
❀ امام ابن المنذر نیشاپوریؒ فرماتے ہیں:
"جو جماعتِ ثانیہ سے منع کرتا ہے یا اسے مکروہ کہتا ہے، اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔”
(الاوسط، ج4، ص218)
❀ امام و انتظامیہ کی اجازت:
"وَلا تَؤُمَّنَّ الرَّجُلَ فِي أهْلِهِ وَلا فِي سُلْطَانِهِ… إِلا أنْ يَأْذَنَ لَكَ”
(صحیح مسلم: 673)
بغیر امام یا انتظامیہ کی اجازت کے مسجد میں جماعتِ ثانیہ نہ کی جائے، البتہ شارع عام کی مساجد میں عرفاً اجازت ہوتی ہے۔
تنبیہات:
❀ نبی کریم ﷺ کا مکمل درود لکھا جائے، صرف "ص” نہ لکھا جائے۔
❀ اہل حق کو اہل بدعت کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
(تفصیل: کتاب "بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم” از راقم الحروف)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب