مساجد میں خرید و فروخت
مساجد میں گمشدگی کے اعلانات کی ممانعت کے سلسلہ میں بعض احادیث کے ضمن میں یہ بات گزری ہے کہ مساجد میں خرید و فروخت یعنی کسی چیز کا سودا کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ ایسا کرنے والے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا فرمائی ہے۔ چنانچہ سابق میں ذکر کی گئی ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد اور شرح السنہ کی حدیث حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نهى عن الشراء والبيع فى المسجد وأن ينشد فيه ضالة وأن ينشد فيه شعر ونهى عن التحلق قبل الصلاة يوم الجمعة
سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1079
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے سے منع فرمایا۔ اور اس بات سے منع فرمایا کہ مسجد میں گمشدہ اشیاء کا اعلان کیا جائے۔ اور اس سے بھی منع فرمایا کہ مسجد میں فضول شعر گوئی کی جائے۔ اور جمعہ کے دن نماز سے قبل مسجد میں حلقے بنانے سے بھی منع فرمایا۔
ایسے ہی ترمذی، نسائی في عمل اليوم والليله، ابن خزیمہ، ابن حبان، مستدرک حاکم، بیہقی، دارمی، ابن السنی اور ابن الجارود میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع فى المسجد فقولوا لا أربح الله تجارتك وإذا رأيتم من ينشد ضالة فقولوا لا ردها الله عليك
صحیح ترمذی 1066 – نسائی فی عمل الیوم واللیلہ 176 – ابن خزیمہ 1302، 1305 – الحاكم 56/2 – بیہقی 447/2 – دارمی 366/1 – ابن السنی 153 – ابن الجارود 562 اور اس کی مفصل تخریج کے لیے ملاحظہ ہو الاحسان ترتیب ابن حبان 528/4 تا 530 – تخریج حدیث 1650، 1651
جب تم کسی شخص کو مسجد میں خریدتے یا بیچتے دیکھو تو اسے کہو کہ اللہ تمہاری تجارت کو سودمند و منافع بخش نہ بنائے۔ اور جب کسی کو گمشدگی کا اعلان کرتے دیکھو تو اسے کہو کہ تمہاری چیز اللہ تمہیں واپس نہ لوٹائے۔
ان اور ایسی ہی دیگر احادیث کے پیش نظر مسجد میں کسی چیز کے خریدنے یا بیچنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اور مازری سے نقل کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری (550/1) میں لکھا ہے کہ:
مسجد میں خرید و فروخت کے جواز میں تو اختلاف ہے۔ البتہ اگر کوئی عقد بیع وشراء ہو جائے تو اس کے صحیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
اور ظاہر ہے کہ خرید و فروخت خالص کاروبار دنیا ہے۔ جو مساجد کے اغراض و مقاصد سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اس لیے مسجد میں بیٹھ کر کسی قسم کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔ اور غالباً ایسا نہیں ہوتا۔ لہذا ہم اس موضوع کو طول نہیں دینا چاہتے۔
بالتفصیل اعلام الساجد للمزرکشی ص 324-325، شرح السنہ بخوی 272-276/2