وصیت کے لیے شرعی عبارت
وصیت حسب ذیل مخصوص عبارت میں لکھی جائے:
میں زیر وصیت کنندہ، اللہ کی توحید، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت، عیسی کی عبدیت و رسالت، ان کے حضرت مریم کی طرف القا کیے گئے کلمے اور روح اللہ ہونے کی، جنت و دوزخ کے برحق ہونے کی، قیامت کے بلاشبہ آنے کی اور قبروں سے اٹھائے جانے کی گواہی دیتے ہوئے اپنے اہل و عیال اور تمام رشتے داروں کو تقوی اختیار کرنے، باہم اصلاح قائم رکھنے، حق کی تلقین اور اس پر صبر کرنے کی وصیت کرتا ہوں، نیز انہیں وہی وصیت کرتا ہوں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں اور یعقو ب علیہ السلام نے کی تھی:
«يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ» [البقرة: 132]
”اے میرے بیٹو ! بے شک اللہ نے تمہارے لیے یہ دین چن لیا ہے، تو تم ہرگز فوت نہ ہونا مگر اس حال میں کہ تم فرماں بردار ہو۔“
اس کے بعد اپنے مال سے تیسرے حصے کی یا اس سے کم یا کسی مخصوص مال کی جو تیسرے حصے سے زیادہ نہ ہو، وصیت کرنا چاہتا ہے، اسے ذکر کرے، اس کے شرعی مصارف بیان کرے اور اس پر جس کو وکیل بنایا ہے اس کا ذکر کرے۔ اگر انسان کسی چیز کی وصیت کرنا چاہے تو یہ مستحب ہے، واجب نہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کسی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ اس کے متعلق وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ دو راتیں بھی ایسے گزارے کہ وہ اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2738 صحيح مسلم 1627]
لیکن اگر اس پر قرض ہو یا ایسے حقوق ہوں جنھیں ثابت کرنے کے لیے قانونی کاغذات نہ ہو تو پھر اس پر ان کی وصیت کرنا لازم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی وصیت پر دو عادل گواہ مقرر کرے اور قابل اعتماد و صاحب علم آدمی سے اس کے تصدیق نامے کی تحریر لکھوائے، صرف اپنے خط پر اکتفا نہ کرے، کیونکہ اس میں ذمہ داران کے لیے خلط ملط ہونے اور اشتباہ کا امکان ہے، نیز بسا اوقات اس کو جاننے والے کسی با اعتماد کا حصول بھی آسان نہیں ہوتا۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 26/20]