مساوات کا مغربی تصور حقیقت یا فریب

مساوات کی غیر متعین نوعیت

مساوات کی اصطلاح بذات خود کوئی واضح اور متعین مفہوم نہیں رکھتی، کیونکہ دنیا میں دو انسان کبھی بھی مکمل طور پر برابر نہیں ہو سکتے، چاہے وہ جڑواں بھائی یا بہن ہی کیوں نہ ہوں۔ جب مکمل یکسانیت ممکن ہی نہیں، تو مساوات کا مطالبہ کیسے معقول ہو سکتا ہے؟ اگر کسی مساوات کے حامی سے یہ پوچھا جائے کہ ایک کمپنی کے جنرل منیجر اور چپراسی کی تنخواہ میں اتنا فرق کیوں ہے، تو وہ کوئی منطقی جواب ضرور دے گا، لیکن یا تو اپنے ہی اصولوں کے خلاف بات کرے گا یا پھر کوئی استثناء پیش کرے گا۔

مغرب کا مساوات کا دوہرا معیار

مغرب کی مساوات کا تصور سطحی ہے، کیونکہ وہ اپنی وضع کردہ مساوات کو مسترد کرنے یا اس میں کسی بھی قسم کی استثناء دینے کے لیے تیار نہیں۔ جو بھی مغرب کے دباؤ سے آزاد ہو کر غور کرے گا، وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ مساوات کی یہ اصطلاح دراصل مغربی تسلط کا دوسرا نام ہے۔ مغرب اس لفظ کو اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرتا ہے اور جہاں چاہتا ہے، استثناء کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال فلسطین کا مسئلہ ہے، جہاں مساوات، آزادی اور انسانی حقوق کی کوئی گنجائش نہیں رکھی جاتی، بلکہ اسرائیل کے لیے خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں۔

جنسی مساوات: حقیقت یا فریب؟

مرد و عورت میں جسمانی اور نفسیاتی فرق ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، جو کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ یہ فرق معاشرتی رویوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، اور ان حقائق سے انکار صرف وہی کر سکتا ہے جو حقیقت سے بالکل بے خبر ہو۔

مغرب کی عملی منافقت

مغرب نے اپنے نظام میں بھی مجبوری کے تحت مرد و عورت میں فرق کو تسلیم کیا ہے، جیسے ملازمت کے قوانین میں کچھ رعایتیں دینا۔ لیکن جب وہ مساوات مرد و زن کا مطالبہ کرتا ہے تو درحقیقت وہ مساوات نہیں بلکہ اپنی تقلید کا مطالبہ کر رہا ہوتا ہے۔ مغرب چاہتا ہے کہ ہم بھی مرد و زن کے درمیان اتنا ہی فرق کریں جتنا وہ کرتا ہے، اور مساوات کے نام پر ہمارا اپنا معاشرتی ڈھانچہ بدل ڈالیں۔

سرمایہ دارانہ نظام اور مساوات

یہ مطالبہ محض ایک فکری نظریہ نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز، چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہو، بس ایک معاشی وسیلہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے کارپوریٹ دنیا میں انسان کو یا تو "ہیومن ریسورس” سمجھا جاتا ہے یا "کنزیومر”۔

یہ ذہنیت ہمارے معاشرے میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ ایک عام تعلیم یافتہ شخص بھی کہتا سنائی دیتا ہے:
"وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جس کی آدھی آبادی گھروں میں بیٹھی ہو؟”
یہ جملہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ترقی کا مطلب صرف معاشی ترقی لیا جا رہا ہے، اور خاندانی نظام کے بکھرنے کی کوئی پرواہ نہیں کی جا رہی۔

اسلامی نقطۂ نظر

اسلامی نظام میں معاشی ترقی ثانوی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ خاندانی نظام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک مرد روزی کماتا ہے کیونکہ اس کا خاندانی نظام اس سے اس کا تقاضا کرتا ہے، اور ایک عورت گھر کی ذمہ داری سنبھالتی ہے کیونکہ یہی خاندانی استحکام کا تقاضا ہے۔ یہاں اصل سوال مرد و عورت کی برابری کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کسی قوم کے لیے سرمایہ داری زیادہ اہم ہے یا خاندانی نظام؟

مغرب سے بنیادی سوالات

ہم مغرب سے یہ سوال کرتے ہیں:
◄ جب مرد و عورت میں فطری فرق ہے، تو وہ ہم سے یکساں سماجی کردار کا مطالبہ کیوں کرتا ہے؟
◄ وہ خود اس اصول کی مکمل پابندی کیوں نہیں کرتا؟
◄ مغرب مساوات کے نام پر اپنا معاشرتی نظام ہم پر کیوں مسلط کرنا چاہتا ہے، جب کہ اس کا اپنا نظام محض ایک صدی میں ہی بکھر چکا ہے؟

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مرد اور عورت اعمال، جزا و سزا کے لحاظ سے برابر ہیں، لیکن ہماری پوری بحث ان کے سماجی کردار سے متعلق ہے، نہ کہ ان کی اہمیت یا اللہ کے نزدیک ان کے مقام کے بارے میں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1