مساجد کے خطباء کی ذمہ داریاں
اور فضول قسم کی شعر گوئی کرنے والے نعت خواں عموماً جاہل اور علم دین سے خالی ہوتے ہیں۔ لہذا یہ علماء اور مساجد کے خطباء و واعظین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا مواد چیک کر لیا کریں۔ اگر ٹھیک ہو تو فبہا ورنہ روک دیا جائے۔ لیکن اب اس کا کیا کریں کہ مسؤلین ہی اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے۔ جب کہ اہل علم نے اس سلسلہ میں ان کی ذمہ داری کے امور گن کر بتائے ہیں۔ مثلاً علامہ محمد جمال الدین قاسمی نے اپنی نفیس کتاب اصلاح المساجد من البدع والعوائد میں نقل کیا ہے کہ واعظین کی ذمہ داریاں چند امور میں منحصر ہیں۔
اول:
یہ کہ عوام کو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی صفات عالیہ، اس کے حق میں محال اور جائز امور اور انبیاء و رسل کے مقام و مرتبہ سے آگاہ کریں۔
دوم:
یہ کہ دین کے ارکان مثلاً نماز، روزہ، حج، اور زکوٰة کی تعلیم دیں، اور ان کے آداب و احکام اور ان کے دنیاوی و اخروی فوائد بتائیں۔
سوم:
یہ کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کریں۔ یعنی بھلائی کی دعوت دیں اور برائی سے باز کریں، اور دینی آداب و فضائل پر کاربندی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی پابندی پر ابھاریں۔
چہارم:
یہ کہ وہ عوام الناس کو اچھے اعمال کے اختیار کرنے پر آمادہ کریں، اور انہیں یہ سمجھائیں کہ ہر شخص کو اس کے اچھے اور برے کاموں کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔
پنجم:
لوگوں کو جائز شرعی امور میں تعاون کرنے کی ترغیب دلائیں، اولاد کی اچھی تربیت پر توجہ دلائیں، ہر کام کو صحیح طور پر سر انجام دینے پر زور دیں، امانت کے تحفظ کی ضرورت کو واضح کریں اور آپس میں اخوت، بھائی چارگی کا احساس پیدا کریں۔ کیونکہ یہی قوموں کی زندگی کا سرچشمہ اور دنیا و آخرت میں ان کی بہبود کا باعث ہے۔
ششم:
دلوں کو فاسد اوہام و خیالات سے پاک کریں کیونکہ انہی کی وجہ سے باطل عقیدے جنم لیتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کے اندر اللہ تعالٰی کے سامنے جھکنے اور عاجزی کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔ آگے چل کر علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ اللہ جانتا ہے کہ واعظین نے اپنے ان فرائض و واجبات یا ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا۔ بلکہ وہ اوہام و خرافات اور باطل و موضوع احادیث و اقوال کا سہارا لے کر اپنی محفلوں میں رنگ بھرتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ اپنے واعظوں میں زہر گھولتے ہیں، اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب غلط حدیثوں اور حقائق سے بعید باتوں کو منسوب کرتے ہیں۔ ترغیب و ترہیب میں تشدد و مبالغہ اور سہولت سے حسب منشاء کام لیتے ہیں۔
اور پھر اس قسم کے واعظین سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں:
اے واعظو! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے سے تمہیں انسیت ہو گئی ہے۔ اور تم اس کو حقائق کہتے ہو، حالانکہ یہ کھلا ہوا اور واضح گناہ ہے، جس کے حرام ہونے پر تمام علماء اسلام کا اتفاق ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے (جو بہتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیس کتب میں مروی ہے) جسے صحیح و متواتر حدیث قرار دیا گیا ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار
بخاری 110، 107 – مختصر مسلم 1861، 1862 – صحیح ابی داؤد 3102 – صحیح ترمذی 1200، 2141 – ابن ماجہ 30، 33 – صحیح الجامع 6519
جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں لکھا ہے:
من گھڑت حدیث کا علم یا ظن ہو جانے کے بعد اس کی روایت حرام ہے (سوائے اس کا ضعف واضح کرنے والے کے لیے) اور جو جانتے ہوئے ایسا کرے گا۔ وہ اس حدیث میں مذکور وعید کا مستحق ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بھی کوئی فرق نہیں کہ اس جھوٹ کا تعلق احکام سے ہے یا ترغیب و ترہیب اور مواعظ سے۔ کیونکہ ہر مسئلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی حدیث منسوب کرنا حرام ہے۔ تمام دانش مندوں کا اتفاق ہے کہ کسی بھی شخص کی طرف جھوٹ بات کا انتساب حرام ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کو غلط طور پر منسوب کرنا کتنا بڑا گناہ ہوگا۔
اصلاح المساجد القاسمی اردو از ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری ص 150-152، الدار السلفیہ بمبئی