مساجد کے آئمہ کا غلط انتخاب اور اس کا حل

مولوی حضرات میں پائی جانے والی خامیاں

ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ مساجد میں موجود مولوی حضرات میں چند خامیاں پائی جاتی ہیں، اور بعض مقامات پر منبر کو اصلاح کے بجائے غیر ضروری اختلافات اور بے مقصد بحثوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں، کئی پڑھے لکھے افراد علماء سے بے زار نظر آتے ہیں۔

کیا واقعی یہ مولوی علم والے ہیں؟

اگر ہم حقیقی اصلاح چاہتے ہیں اور مسئلے کی گہرائی تک پہنچنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جنہیں ہم مولوی کہہ رہے ہیں، کیا وہ واقعی علم والے ہیں؟ حدیث میں آیا ہے: "العلماء ورثۃ الانبیاء” یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو انبیاء کے حقیقی وارث ہیں، وہ کبھی کرپٹ نہیں ہو سکتے۔ جہاں بھی کرپشن ہوئی، وہاں علم کو منبر تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا۔

ذمہ دار کون ہے؟

مساجد میں فرقہ واریت، غیر ضروری بحثوں اور چندے کی باتوں کے ذمہ دار علماء یا مدارس نہیں ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان مولوی حضرات کا انتخاب کون کرتا ہے؟ زیادہ تر مساجد کی کمیٹیاں ریٹائرڈ سرکاری افسران یا منشی حضرات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ آخر کار، ایسے افراد امام یا خطیب کے انتخاب کا فیصلہ کرتے ہیں جو علم کی کمی رکھتے ہیں۔

نااہل افراد کا انتخاب

ایک دوست کا واقعہ ہے کہ ان کی مسجد میں امام و خطیب کے انتخاب کے لیے تین ماہ تک انٹرویوز ہوتے رہے اور آخر کار ایک نوجوان لڑکے کا انتخاب کیا گیا کیونکہ اس کی آواز اچھی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض اچھی آواز یا نعتیں پڑھنے کی صلاحیت پر انتخاب کرنا صحیح ہے؟ اصل معیار علم اور تقویٰ ہونا چاہیے، جبکہ ہمارے معاشرے میں یہ چیز نظر انداز ہو رہی ہے۔

مولوی حضرات کی نااہلیت کا سبب

جس طرح گلی محلے میں جعلی تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں، ویسے ہی کچھ مساجد بھی ہیں جہاں مولوی حضرات کو معمولی تنخواہ پر رکھا جاتا ہے، اور اس بات کی تحقیق نہیں کی جاتی کہ وہ عالم ہیں بھی یا نہیں۔ مسجد کی کمیٹی والوں کو بس ایک داڑھی والا شخص چاہیے جو چند سورتیں پڑھ سکے۔ نتیجتاً، محلے کے لوگ ان نااہل افراد کے ہاتھوں بدقسمتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

مسئلے کا حل

سب سے پہلے، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جو لوگ مساجد کے آئمہ کا انتخاب کر رہے ہیں، کیا وہ انتخاب کرنے کے اہل ہیں؟ جب نااہل افراد ایسے حساس فیصلے کریں گے، تو نتائج نقصان دہ ہی ہوں گے۔ مسجد کی کمیٹیوں میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیے جو دین کو سمجھتے ہوں، اور دینی مدارس کے علماء کے ساتھ مل کر منظم اور باہمی مشاورت سے فیصلے کریں۔

آئمہ اور علماء کے معیار کو بہتر کرنا

مساجد کے آئمہ کی تنخواہیں مناسب رکھی جائیں اور منتخب ہونے والے امام یا خطیب کا عالم یا مفتی ہونا ضروری ہو، محض حافظ ہونا کافی نہیں۔ جہاں منبر اہل افراد کے سپرد کیا گیا، وہاں برکت اور بہتری نظر آئی ہے۔ وہ نمازی بھی دین کی بہتر سمجھ رکھتے ہیں اور معاشرے کی تعمیر میں کردار ادا کرتے ہیں۔

خلاصہ

➊ مولوی حضرات کا انتخاب نااہل افراد کی جانب سے کیا جانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
➋ اہل علماء کی ضرورت ہے جو دین کی صحیح سمجھ اور تقویٰ رکھتے ہوں۔
➌ مسجد کی کمیٹیاں ذمہ دار افراد اور علماء کے اشتراک سے تشکیل دی جائیں۔
➍ مساجد میں علماء اور آئمہ کی تنخواہیں اور معیار بہتر کیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے