مساجد کی صفائی و ستھرائی کی اہمیت و فضیلت پر صحیح احادیث
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

مساجد کی صفائی و ستھرائی

حسب ضرورت مسجد بنائی جائے چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اسے سفید یا کریم رنگ کیا جائے۔ اور بیل بوٹوں سے پاک صرف سادہ ہی رکھا جائے، تو پھر اس کی صفائی و ستھرائی میں کوئی ممانعت نہیں۔ بلکہ الٹا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ وابن خزیمہ اور مسند احمد میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ببناء المساجد فى الدور، وأن تنظف وأن تطيب
صحیح ابی داود 346، صحیح ترمذی 487، ابن ماجہ 759، ابن خزیمہ 574، ابن حبان الموارد 306، صحیح الترغیب 113/1
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبائل ڈیروں (یعنی دیہات) میں مساجد بنانے کا حکم فرمایا۔ اور یہ بھی حکم فرمایا کہ انہیں پاک صاف اور خوشبو سے معطر رکھیں۔
اور ایک دوسری حدیث مسند احمد میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں:
أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نتخذ المساجد فى ديارنا وأمرنا أن تنظفها
صحیح الترغیب و الترہیب 112/1
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم اپنے قبائل کے ڈیروں (یعنی دیہات) میں مساجد بنائیں اور انہیں صاف ستھرا رکھیں۔
اور مسجد کی صفائی و ستھرائی کا اہتمام کرنے والوں کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ان احادیث سے کیا جا سکتا ہے، جن میں سے ایک صحیح بخاری و مسلم، ابن ماجہ اور ابن خزیمہ میں ہے، جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
إن رجلا أسود أو امرأة سوداء كان يقم المسجد، فمات فسأل النبى صلى الله عليه وسلم عنه فقالوا مات، قال: أفلا كنتم آذنتموني به، دلوني على قبره أو قال قبرها، فأتى قبرها فصلى عليها
بخاری مع الفتح 552/1، مختصر مسلم للمنذری 579، ابن ماجہ 1527، صحیح ترغیب 112/1
ایک کالے رنگ کا مرد یا کالی عورت مسجد نبوی کی صفائی کیا کرتی تھی۔ وہ وفات پاگئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد یا عورت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ وفات پاگئی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے مجھے اس کی خبر کیوں نہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کی قبر بتاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر گئے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
اس حدیث میں مرد یا عورت کہا گیا ہے، جب کہ ابن ماجہ و ابن خزیمہ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ وہ عورت تھی۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں:
كانت سوداء تقم المسجد، فتوفيت ليلا فلما أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر بها فقال: ألا آذنتموني، فخرج بأصحابه فوقف على قبرها، فكبر عليها والناس خلفه ودعا لها ثم انصرف
ابن ماجہ 1533، صحیح ترغیب 275
ایک کالے رنگ کی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی۔ وہ رات کے وقت وفات پاگئی، صبح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس عورت کی قبر پر تشریف لے گئے اور صفیں بنائی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے لئے دعائے مغفرت و رحمت کے بعد واپس تشریف لے آئے۔
اور صحیح بخاری میں یہ حدیث پہلے تو باب كنس المسجد، والتقاط الخرق والقذى والعيدان کے تحت لائی گئی ہے، جس میں مرد یا عورت میں سے کسی کو ترجیح نہیں دی گئی، جب کہ تھوڑا ہی آگے چل کر امام صاحب نے ایک اور باب قائم کیا ہے۔ باب الخدم للمسجد اور اس ميں سياق حديث كے دوران ہی والاراد الا امرأة كے الفاظ بهي وارد کئے ہیں۔ جس سے اس کے عورت ہونے کو ہی ترجیح دی ہے۔ جب کہ دوسری حدیث میں ذکر ہی صرف عورت کا ہے۔
فتح الباری 553/1
اور سنن کبریٰ بیہقی میں حسن سند کے ساتھ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس عورت کا نام "ام محجن” آیا ہے، جب کہ ابن مندہ کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں اس کا نام "خرقاء” وارد ہوا ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ اگر خرقاء نام محفوظ ہے تو پھر یہ نام ہوگا، اور اس نیک خاتون کی کنیت "ام محجن” ہوگی۔
بخاری مع الفتح 205/3
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیئے بغیر اس عورت کو دفن کر دینے کا سبب صحیح ابن خزیمہ میں، ایسے ہی سنن کبریٰ بیہقی میں مذکور ہے کہ اس کی وفات رات کے وقت ہوئی:
فكرهنا أن نوقظك
ہمیں یہ اچھا نہیں لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگا کر( بے آرام) کریں۔
اور صحیح بخاری میں کتاب الجنائز میں جا کر جو حدیث وارد کی گئی ہے اس میں ہے:
فحقرها وأشأنه
کہ صحابہ نے اسے معمولی سمجھتے ہوئے ایسا کیا۔
بہرحال ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسجد کی صفائی و ستھرائی کی بہت فضیلت و اہمیت ہے۔ اور اس کا اندازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کرنے اور پھر قبر پر جا کر صحابہ کے ساتھ اس کی نماز جنازہ کا اہتمام کرنے، اور اس کے لئے دعاء مغفرت و رحمت سے ہوتا ہے۔
علامہ زرکشی نے اعلام المساجد صفحہ نمبر 335 میں اس موضوع کی مستقل فصل (27) قائم کی ہے۔

مسجد کے لئے خادم

اور امام بخاری نے اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی اخذ کیا ہے کہ مسجد کے لئے خادم یعنی صفائی و ستھرائی کرنے کے لئے کسی کو مخصوص کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان احادیث میں مذکور ایک نیک خاتون نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کی اس خدمت کے لئے وقف کیا ہوا تھا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس خدمت باسعادت پر برقرار رہنے دیا تھا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے برقرار رہنے دینا ہی دراصل اس مذکورہ مسئلہ کی دلیل ہے۔ اور امام بخاری نے اس دلیل کی تائید قرآن کریم سورہ آل عمران آیت 35 کے ان الفاظ سے بھی حاصل کی ہے، جس میں ارشاد الہی ہے کہ عمران کی بیوی (حنہ بنت فاقوذا) نے عرض کیا:
﴿رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا﴾
اے میرے پروردگار، جو میرے پیٹ میں ہے، میں اسے آزاد کر کے تیری نذر کر چکی ہوں۔
اور صحیح بخاری کے ایک ترجمة الباب میں تعلیقاً اور ابن ابی حاتم کے یہاں موصولاً ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر بھی مروی ہے۔
جس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ:
﴿نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا﴾
سے مراد یہ ہے:
للمسجد يخدمه
میں اپنے پیٹ والے بچے کو (اے اللہ) تیری نذر کرتی ہوں تاکہ وہ مسجد کی خدمت کیا کرے۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ تفسیر وارد کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسجد کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کی خدمت کرنا سابقہ امتوں میں بھی مشروع تھا۔ حتیٰ کہ بعض نے تو اپنی اولاد کو اس خدمت کے لئے اللہ کی نذر کر دیا تھا۔
بہرحال احادیث سے مسجد کی مذکورہ طریق پر خدمت کرنے اور اس کی فضیلت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
بخاری مع الفتح 554/1

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے