مساجد کی تعمیر اور ان کی طہارت و نظافت کا اہتمام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

مساجد کی تعمیر اور ان کی طہارت و نظافت کا اہتمام

➊ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من بنى لله مسجدا بنى الله له مثله فى الجنة
[بخاري 450 ، كتاب الصلاة : باب من بنى مسجدا ، مسلم 533 ، ترمذي 318 ، ابن ماجة 736 ، أحمد 270/1 ، ابن خزيمة 1291 ، دارمي 323/1 ، بيهقي 437/2]
” جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کی مثل جنت میں (گھر) بنا ئیں گے ۔“
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
امر رسول الله ببناء المساجد فى الدوروأن تنظف وتطيب
[صحيح : صحيح أبو داود 437 ، أيضا ، أبو داود 456]
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مساجد کی تعمیر اور انہیں پاکیزہ خوشبودار رکھنے کا حکم دیا ہے۔“
➌ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مکتوب میں لکھا کہ :
فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمرنا بالمساجد أن نضعها فى دورنا و نصلح صنعتها و نطهرها
[صحيح : صحيح أبو داود 436 ، كتاب الصلاة: باب اتخاذ المساجد فى الدور ، أبو داود 455 ، أحمد 17/5 ، ترمذي 594]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں محلوں میں مساجد بنانے، ان کی بناوٹ کی اصلاح کرنے اور انہیں پاکیزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ “
امام صنعانیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں مساجد کی تعمیر کا حکم استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لیے ساری زمین کو پاکیزہ و مسجد بنایا گیا ہے لہذا جس شخص کو بھی نماز مل جائے :
فليصل حيث أدركنه
[بخاري 335 ، كتاب التيمم : باب قول الله تعالى فلم تحدوا ماء فتيمموا …، مسلم 521 ، نسائي 210/1 ، دارمي 322/1 ، أحمد 304/3 ، سبل السلام 352/1]
” وہ وہیں نماز پڑھ لے کہ جہاں اسے ملی ہے۔“

مساجد اللہ کی پسندیدہ جگہیں ہیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احب البلاد إلى الله مساجدها
[مسلم 671 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب فضل الجلوس فى مصلاة بعد الصبح و فضل المسجد]
” الله تعالى کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں مسجدیں ہیں ۔ “

مساجد کی تزئین و آرائش

اور انہیں فخر و ریا کاری کا باعث بنانا نا جائز و ممنوع ہے۔
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أمرت بتشييد المساجد
” مجھے مساجد کی تزئین و آرائش کا حکم نہیں دیا گیا۔
” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :
لتز خرفنها كما زخرفتها اليهود والنصارى
[صحيح : صحيح أبو داود 431 ، كتاب الصلاة : باب فى بناء المساجد ، أبو داود 448 ، شرح السنة 464 ، أبو يعلى 2454 ، عبد الرزاق 152/3]
”تم ضرور انہیں مزین کرو گے جیسا کہ یہود و نصاری نے انہیں مزین کیا تھا۔“
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا تقوم الساعة حتى يتبـاهـي الـنـاس فـي المساجد
[صحيح : صحيح أبو داود 432 ، أيضا ، أبو داود 449 ، ابن ماجة 739 ، نسائي 3212 ، أحمد 134/3 ، ابن خزيمة 1322 ، دارمي 327/1 ، ابن حبان 1614 ، أبو يعلى 2798]
” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ لوگ مساجد ( کی تعمیر) میں فخر نہ کرنے لگیں ۔“
عہد رسالت و خلافت راشدہ میں مساجد کی یہی کیفیت تھی۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک پہلا شخص ہے کہ جس نے مسجد نبوی میں تزئین و آرائش اور نقش و نگار کے کام کروائے چونکہ ولید حکمران تھا اس لیے علماء کو مجبورا خاموش ہونا پڑا۔
[سبل السلام 365/1]

مساجد کی طرف تیز چل کر آنا ممنوع ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا سمعتم الإقامة فامشوا إلى الصلاة وعليكم بالسكينة والوقار ولا تسرعوا فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا
[بخارى 636 ، كتاب الأذان : باب لا يسعى إلى الصلاة وليأنها بالسكينة والوقار]
” جب تم اقامت سن لو تو نماز کے لیے اس طرح چل کے آؤ کہ تم پر سکون اور وقار ہو اور جلدی مت کرو۔ جتنی نماز مل جائے وہ پڑھ لو جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو۔“
اگرچہ مذکورہ حدیث میں ممانعت کو اقامت سننے کے ساتھ مقید کیا گیا ہے لیکن اقامت سے پہلے بھی تیزی سے مساجد کی طرف آنا ممنوع ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ :
إذا أتيتم الصلاة فعليكم بالسكينة
[بخاري 635 ، كتاب الأذان : باب قول الرجل فاتتنا الصلاة]
” جب تم نماز کے لیے آؤ تو سکون واطمینان سے آؤ۔“
پہلی حدیث میں اقامت کی قید صرف اس لیے ہے کیونکہ عموما یہی چیز انسان کو جلدی کرنے پر ابھارتی ہے۔
[فتح الباري 117/2]

کچی لہسن اور پیاز کھا کر مسجد میں آنا ممنوع ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من اكل نومــا أو بـصــلا فليعتزلنا أو ليعتزل مسجدنا وليقعد فى بيته
[بخاري 7359 ، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة : باب الأحكام التى تعرف بالدلائل…..، مسلم 564 ، أبو داود 3822 ، ترمذي 1806 ، ابن ماجة 3365 ، أحمد 380/3 ، نسائي 158/4 ، بيهقي 76/3 ، اين خزيمة 1668]
” جوشخص کچی لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے دور رہے یا (یہ فرمایا کہ) ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا ر ہے۔“

مسجد میں داخلے کی دعا

أعُوذُ بِاللهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ
[صحيح : صحيح أبو داود 441 ، كتاب الصلاة : باب ما يقول الرجل عند دخوله المسجد ، أبو داود 466]
بِسْمِ اللهِ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ
[حسن : ابن السني 88]
اللهُمَّ افْتَحُ لِى اَبْوَابَ رَحْمَتِكَ
[صحيح : صحيح أبو داود 440 ، أيضا ، نسائي 53/2 ، دارمي 324/1]

مسجد سے نکلنے کی دعا

بِسْمِ اللهِ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ
اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْئلْكَ مِنْ فَضْلِكَ۔
اللَّهُمَّ أَعْصِمُنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ
[أبو داود 465 ، ابن حبان 2049 ، مسلم 713 ، صحيح ابن ماجة 129/1 ، حصن المسلم ص/ 39]

مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعتوں کی ادائیگی ضروری ہے

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صل علیم نے فرمایا:
إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يصلي ركعتين
[بخارى 444 ، كتاب الصلاة : باب إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين ، مسلم 714 ، ترمذي 316 ، أبو داود 467 ، نسائي 53/2 ، ابن ماجة 1013 ، أحمد 295/5 ، شرح السنة 481 ، ابن خزيمة 1825]
” جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعت نماز نہ پڑھ لے۔“
اس مسئلے کی مزید تفصیل آئندہ ” باب صلاة التطوع “ میں آئے گی۔

مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرنا جائز نہیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مس سمع رجــلا يـنـشـد ضــالـة فى المسجد فليقل: لا ردها الله عليك فإن المساجد لم تين لهذا
[مسلم 568 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب النهي عن نشد الضالة فى المسجد ، أبو داود 473 ، ابن ماجة 767 ، أبو عوانة 406/1 ، أحمد 349/2 ، ابن خزيمة 1302 ، بيهقي 447/2]
” جو کوئی کسی آدمی کو مسجد میں اپنی گمشدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو وہ کہے: اللہ کرے وہ چیز تمہیں واپس نہ ملے، کیونکہ مسجدیں اس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئیں ۔“

مسجد میں خرید و فروخت ممنوع ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جب تم مسجد میں کسی شخص کو خرید و فروخت کرتے دیکھو تو اسے کہو :
لا أربح الله تحارتك
[صحيح: صحيح ترمذي 1066 ، كتاب البيوع : باب النهي عن البيع فى المسجد ، المشكاة 733 ، إرواء الغليل 1495 ، ترمذي 1321 ، نسائي 52/6 ، ابن خزيمة 1305]
” اللہ تعالیٰ تمہارے کاروبار میں نفع نہ کرے ۔“

مسجد میں ایسے اشعار پڑھنا جو غیر شرعی نہ ہوں جائز ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے : ينـشـد فـــي المسجد ” وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف گھور کر دیکھا۔ اس پر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا : قد كنت أنشد فيه و فيه من هو خير منك ” میں تو اس وقت بھی مسجد میں اشعار پڑھا کرتا تھا جب مسجد میں وہ ذات موجود ہوتی تھی جو تم سے افضل تھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) ۔“
[بخاري 3212 ، كتاب بدء الخلق : باب ذكر الملائكة ، مسلم 2485 ، نسائي 48/2 ، أحمد 222/5 ، حميدي 1105 ، ابن خزيمة 1307 ، بيهقي 448/2]

مسجد میں لیٹنا جائز ہے

حضرت عباد بن تمیم رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ :
أنه رأى رسول الله مستلقيا فى المسجد واضعا بن إحدى رجليه على الأخرى
[بخارى 475 ، كتاب الصلاة : باب الاستلقاء فى المسجد و مدالرجل ، مسلم 2100 ، أبو داود 4866 ، ترمذى 2765 ، نسائي 50/2 ، أحمد 38/4]
” بے شک انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر چت لیٹے ہوئے دیکھا۔“

مسجد میں سونا جائز ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مسجد میں سو جایا کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کہتے ہیں :
كنا فى زمن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ننام فى المسجد و نقيل فيه ونحن شاب
[بخاري 440 ، كتاب الصلاة : باب نوم الرجال فى المسجد ، مسلم 2479 ، أبو داود 382 ، نسالي 50/2 ، أحمد 12/2 ، ابن ماجة 3919]
” ہم زمانہ نبوت میں مسجد میں سوتے اور اس میں قیلولہ بھی کرتے تھے اور ہم نوجوان تھے ۔“

مسجد میں مریض کے لیے خیمہ لگانا

امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے۔
[نيل الأوطار 672/1]
جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے روز حضرت سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے :
فضرب عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم خيمة فى المسجد
[بخاري 463 ، كتاب الصلاة : باب الخيمة فى المسجد للمرض و غيرهم ، مسلم 1769 ، أبو داود 3101 ، نسائي 45/2 ، أحمد 56/6 ]
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں خیمہ لگوا دیا۔“ تا کہ قریب سے ان کی تیمار داری کر سکیں ۔

عورت کا مسجد میں رات گزارنا

عورت بھی مسجد میں رات بسر کرسکتی ہے بشرطیکہ کسی فتنہ و فساد کا خطرہ نہ ہو۔
[سبل السلام 362/1]
جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ان وليدة سوداء كان لها خباء فى المسجد
[بخاري 439 ، كتاب الصلاة : باب نوم المرأة فى المسجد]
” ایک سیاہ رنگ کی لڑکی کا خیمہ مسجد میں تھا “ وہ میرے پاس باتیں کرنے کے لیے آیا کرتی تھی ۔

مساجد میں قصاص و حدود قائم کرنا حرام ہے

امام شوکانیؒ اور امام صنعانیؒ اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار 665/1 ، سبل السلام 359/1]
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تقام الحدود فى المساجد ولا يستقاد فيها
[حسن : صحيح أبو داود 3769 ، المشكاة 734 ، إرواء الغليل 2327 ، أبو داود 4490 ، كتاب الحدود : باب فى إقامة الحد فى المسجد ، دار قطني 85/3 ، أحمد 434/3 ، بيهقي 328/8 ، شيخ حازم قاضي نے اسے حسن لغيره كها هے۔ التعليق على سبل السلام 309/1 ، حافظ ابن حجرؒ كہتے هيں كه اس كي سند ميں كوئي حرج نهيں ۔ تلخيص الحبير 46/4]
” مساجد میں نہ تو حدود قائم کی جائیں اور نہ ہی قصاص لیا جائے۔“

مسجد میں تھوکنا گناہ ہے

➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
البصاق فى المسجد خطيئة وكفارتها دفنها
[بخاري 415 ، كتاب الصلاة : باب كفارة البزاق فى المسجد ، مسلم 552]
”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ تھوک کو دفن کر دیتا ہے۔“
➋ حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی :
فرأيته يتنخع فدلكها بنعله اليسري
[مسلم 552]
” تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھنگارتے ہوئے دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ( یعنی بلغم کو) اپنی بائیں جوتی کے ساتھ مل لیا۔“
(شوکانیؒ ) ایسا کرنا اس وقت درست ہے جب مسجد میں کچھ نہ بچھایا ہو لیکن اگر مسجد میں چٹائیاں ( قالین ) یا اس کی مثل کوئی چیز بچھائی گئی ہو کہ ( تھوک کو ) دفن کرنا ممکن نہ ہو جو کہ تھوک کا کفارہ ہے تو یہ ( یعنی تھوک کو بغیر ملے چھوڑ دینا ) ایسا گناہ ہو گا کہ جس کا کفارہ نہیں دیا گیا ۔
[السيل الحرار 182/1]

مسجد میں عسکری تربیت اور جنگی مشق کا مظاہرہ جائز ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے پردہ کیسے ہوئے تھے :
وانا أنظر إلى الحبشة يلعبون فى المسجد
[بخاري 463 ، كتاب الصلاة : باب الخيمة فى المسجد للمرض و غيرهم ، مسلم 892]
” اور میں حبشیوں کے اس (جنگی) کھیل کو دیکھ رہی تھی جو وہ مسجد میں کھیل رہے تھے ۔“
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ :
يلعبون بحرابهم فى مسجد رسول الله
[مسلم 1481 ، كتاب صلاة العيدين : باب الرخصة فى اللعب الذى لا معصية فيه]
” وہ مسجد نبوی میں نیزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔“
اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں :
وكان يوم عيد يلعب السودان بالدرق والحراب
[بخاري 2907 ، كتاب الجهاد والسيد : باب الدرق]
” عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عید کے دن سوڈان کے کچھ صحابہ ڈھال اور نیزے کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔“

مسجد میں کھانا جائز ہے

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كنا نأكل على عهد رسول الله فى المسجد الخبز و اللحم
[صحيح : صحيح ابن ماجة 2669 ، كتاب الأطعمة : باب الأكل فى المسجد ، صحيح أبو داود 187 ، تمام المنة ، ابن ماجة 3300 ، ابن حبان 1657 ، أحمد 190/4 ، حافظ بوصيريؒ نے اسے حسن كہا هے۔ الزوائد 80/3]
” ہم عہد رسالت میں مسجد میں روٹی اور گوشت کھایا کرتے تھے ۔“

بوقت ضرورت مشرک مسجد میں داخل ہو سکتا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سا دستہ کسی جہت میں روانہ کیا :
فجاءت برجل تربطوه بسارية من سواري المسجد
[بخارى 462 ، كتاب الصلاة : باب الاغتسال إذا أسلم مسلم 3310]
” یہ لوگ ایک آدمی ( حضرت ثمامہ بن آثال رضی اللہ عنہ جو ابھی مشرک تھے ) کو گرفتار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور اس قیدی کو مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وفد ثقیف ( کے مشرکین ) کو مسجد میں ٹھہرانا بھی اس کی دلیل ہے۔
[ ضعيف: ضعيف أبو داود 297 ، كتاب الصلاة : باب تحزيب القرآن ، أبو داود 1393 ، ابن ماجة 1345 ، أحمد 343/9 ، شيخ محمد صحبي حلاق نے اسے صحيح كہا هے۔ التعليق على السيل الجرار 402/1]

آذان کے بعد مسجد سے نکلنا

کسی ضروری حاجت کے علاوہ ایسا کرنا جائز نہیں جیسا کہ حضرت ابو شعثاء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی عصر کی آذان کے بعد مسجد سے نکلا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اما هذا فقد عصى أبا القاسم
[مسلم 655 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب النهي عن الخروج من المسجد إذا أذن المؤذن ، أبو داود 536 ، ترمذي 204 ، اين ماجة 733 ، أحمد 410/2 ، ابن خزيمة 1506]
” اس نے ابو القاسم (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کی ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں :
إذا كنتم فى المسجد فنودي الصلاة فلا يخرج أحدكم حتى يصلى
[أحمد 537/2 ، امام بيشميؒ رقمطراز هيں كه اس كے رجال صحيح كے رجال هيں۔ المجمع 8/2]
” جب تم مسجد میں ہو اور نماز کے لیے آذان دے دی جائے تو تم میں سے کوئی نماز پڑھنے سے پہلے باہر نہ نکلے ۔“

مسجد میں نماز کا انتظار نماز ہی شمار ہوتا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا يزال أحدكم فى الصلاة ما دامت الصلاة تحبسه لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة
[بخاري 3229 ، 659 ، كتاب الأذان : باب من جلس فى المسجد ينتظر الصلاة و فضل المسجد ، مسلم 166/5 ، أبو داود 470 ، موطا 161/1]
” تم میں سے ایک اس وقت تک نماز میں ہی رہتا ہے جب تک کہ نماز اسے روکے رکھتی ہے اس طرح کہ اسے اس کے گھر والوں کی طرف جانے سے صرف نماز روک رہی ہو۔“

مسجد میں مباح کلام اور ہنسنا

جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: المجموع 177/2 ، المحلى 241/4 ، حاشية ابن عابدين 445/1]
جیسا کہ حدیث میں صحابہ کے متعلق موجود ہے کہ :
كانوا يتحدثون فياخذون فى أمر الجاهلية فيضحكون و يتبسم
” صحابہ کرام گفتگو کرتے، جاہلیت کے کام کو اختیار کرتے، اور ہنستے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مسکرا دیتے ۔“
[طبراني كبير والأوسط كما فى المجموع 24/2 ، ابن عساكر فى تاريخ دمشق 2/39/12]

خانہ کعبہ میں داخل ہو کر نماز ادا کرنا جائز ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت اسامہ بن زید، حضرت بلال اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا۔ پس جب انہوں نے دروازہ کھولا تو سب سے پہلے میں داخل ہوا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ملاقات کر کے ان سے سوال کیا کہ : هل صلى فيه رسول الله ” کیا اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے؟“ تو انہوں نے جواب دیا کہ : نعم ، بين العمودين اليمانيين ” ہاں دو یمانی ستونوں کے درمیان ۔“
[بخاري 468 ، 504 ، 505 ، 1599 ، كتاب الصلاة : باب الصلاة بين السواري فى غير جماعة ، مسلم 1329 ، أبو داود 2023 ، ابن ماجة 3063 ، نسائي 63/2 ، موطا 398/1 ، أحمد 33/2 ، دارمي 53/2 ، اين خزيمة 3009]
یاد رہے کہ کعبہ میں صرف نفل نماز ہی پڑھی جاسکتی ہے لیکن امام شافعیؒ اور امام ابوحنیفہؒ اس میں فرض نماز کو بھی جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ مسجد ہی ہے۔ [المغني لابن قدامة 475/2 – 476]

قبروں کے درمیان مسجد بنانا

اگر کسی نے قبرستان میں قبروں کے درمیان مسجد بنائی تو اس کا حکم قبر جیسا ہی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان يكره أن يبنى مسجد فى وسط القبور
[المغنى 47532]

”قبروں کے درمیان مسجد بنانا نا پسند کیا جاتا تھا۔“

قربت کی غرض سے صرف تین مساجد کی طرف سفر جائز ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد : المسجد الحرام و مسجد الرسول، ومسجد الأقصى
[بخاري 1189 ، كتاب فضل الصلاة فى مسجد مكة والمدينة : باب فضل الصلاة فى مسجد مكة والمدينة]
” صرف تین مساجد کے لیے رخت سفر باندھا جائے: مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے لیے ۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے