مساجد کی زرگاری و گل کاری کی ممانعت
البتہ یہاں ایک بات پیش نظر رکھنی رہے کہ اسلام سادگی کا مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات سادہ ہیں، وہ اپنے ماننے والوں سے سادگی کا مطالبہ کرتا ہے، حتیٰ کہ مساجد کے سلسلہ میں بھی اسی سادگی کا حکم دیا ہے کہ ان میں زرکاریاں یا گل کاریاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ نقش و نگار اور بیل بوٹے اسلام کے مزاج سے کوئی نسبت نہیں رکھتے۔ خاص مساجد کے علاوہ بھی بعض امور سے اس بات کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً صحیح بخاری و مسلم، مسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں کوئی ایسا پردہ لگایا جس میں تصاویر تھیں۔
فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزعه
بخاری 5954،5955۔ مسلم مع نووی 86تا89 /14/7
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پردے کو اتار دیا۔
بخاری و مسند احمد کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بقول ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پردے کی موجودگی میں نماز پڑھی تو فرمایا:
أزيلي عني قرامك هذا فإنه لا تزال تصاويره تعرض لي فى صلاتي
ریاض الصالحین صفحہ 631،632۔ متفی مع نیل 1640163/2/1
اپنا یہ پردہ میرے سامنے سے زائل و غائب کر دو کیونکہ اس کی تصویریں میری نماز میں میرے سامنے آتی رہتی ہیں۔
ان احادیث میں ایک تو تصویروں کو آویزاں کرنے کی ممانعت و مذمت ہے۔ دوسرے یہ کہ ایسی کوئی سجاوٹ والی چیز جو تصویروں یا عام نقش و نگار والی ہو، نمازی کے سامنے یا قریب اس کا وجود ایک ناپسندیدہ چیز ہے، کیونکہ اس سے نماز میں خشوع و خضوع متاثر ہوتا ہے۔ اور یہ تو گھر یا عام جگہ کا معاملہ ہے، اور اس سے ہی اسلام کا مزاج سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ مساجد جو بنی ہی صرف عبادت کے لئے ہوں، ان میں نقش و نگار اور بیل بوٹوں کو کیسے گوارا کرے گا۔
یہی وجوہات ہیں کہ تعمیر مساجد کا بے شمار اجر و ثواب بیان کرنے اور اس کی ترغیب دلانے کے ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرما دیا کہ مساجد میں بیل بوٹے اور نقش و نگار بنا کر انہیں مزخرف نہ کیا جائے، اور نہ ان کی تعمیر میں اسراف و تبذیر سے کام لیا جائے۔ چنانچہ سنن ابی داود اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما أمرت بتشييد المساجد
صحیح ابی داود حدیث نمبر 431۔ الموارد 305 لیکن اس میں بعد والے الفاظ ہیں۔ منتقی 149/2/1،150۔ صحیح الجامع 127/5/3۔ مشکوۃ 224/1
مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ میں اونچی اونچی مساجد تعمیر کروں۔
اس حدیث میں وارد لفظ تشييد کا معنی شرح السنه میں امام بغوی رحمہ اللہ نے، ایسے ہی ابن ارسلان نے اونچی اونچی عمارت والی مسجد بنانا ہی لکھا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ قرآن کریم کی سورہ النور آیت 36 میں جو ارشاد الہی ہے:
﴿فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ﴾
ایسے گھروں میں جنہیں بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔
اس آیت میں اگرچہ ترفع کا ظاہری حقیقی معنی تو بلندی کرنا ہی ہے، لیکن اس لفظ سے اس کا مجازی معنی مراد لینا ضروری ہے، اور ترفع کا وہ مجازی معنی ہے مساجد کی تعظیم کرنا کہ اس میں کسی غیر اللہ کا ذکر نہ ہو، انہیں ہر قسم کی ظاہری و باطنی نجاستوں اور غلاظتوں سے پاک صاف رکھا جائے، اور ان میں شور و شغب کی آوازیں بلند نہ کی جائیں، بلکہ انہیں ان تمام امور سے بالا تر رکھا جائے۔
اس ذکر کی گئی حدیث کی روشنی میں اس آیت کا یہی مجازی معنی ہی متعین ہوتا ہے، ورنہ قرآن و سنت میں تصادم لازم آئے گا، جو کہ درحقیقت ہوتا ہی نہیں، جیسا کہ اہل علم نے طے کیا ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اور پھر اونچی اونچی مساجد کی تعمیر انہیں مزخرف کرنے اور ان میں بیل بوٹے بنانے کا راستہ کھولتی ہے، لہذا انہیں اس انداز سے بنانے کی ہی ممانعت کر دی گئی ہے تا کہ کسی فتنے کا خدشہ ہی نہ رہے۔ اور مساجد کو نقش و نگار سے سجانا یہود و نصاریٰ کا فعل شمار کیا گیا ہے۔
جیسا کہ ابو داود وابن حبان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے آخر میں خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول مرفوعاً مروی ہے، جسے بخاری شریف کے ایک ترجمة الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً بیان کیا ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:
تزخرفوها كما زخرفت اليهود والنصارى
نیل الاوطار 150/2/1، فتح الباری 540/1
تم مساجد کو یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح خوبصورت و مزین نہ کرو۔
اونچی اونچی مساجد کی تعمیر پہلے تزئین و زخرفہ کا سبب بنتی ہے۔ جسے یہود و نصاریٰ کا فعل قرار دیا گیا ہے، اور پھر مساجد کی تزئین و تجمیل فخر و مباحثہ کا ذریعہ بن جاتی ہے، جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید فرمائی ہے۔
بخاری مع الفتح 539/1، صحیح ابی داود 431، ابن حبان الموارد 305، منتخب الاخبار 150/2/1
فخر و مباہات:
جب اونچی اونچی مساجد تعمیر کی جائیں گی تو ان پر پھر نقش و نگار ہو گا، پھر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی زیادہ سے زیادہ آرائش و تزئین کی کوششیں شروع ہو جائیں گی، حتیٰ کہ یہ سلسلہ باہم فخر و مباہات کا سبب بن جائے گا، جس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت مذمت فرمائی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے تعلیقاً اور موقوفاً اور صحیح ابن خزیمہ و مسند ابی یعلی اور شرح السنہ بغوی میں موصولاً اور مرفوعاً مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يأتي على أمتي زمان يتباهون بالمساجد ولا يعمرونها إلا قليلا
بخاری مع الفتح 539/1، نیل الاوطار 151/2/1
میری امت کے لوگوں پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ وہ مساجد پر فخر و مباہات کریں گے، لیکن سوائے چند لوگوں کے انہیں (نماز و جماعت اور ذکر الہی سے) آباد کوئی نہیں کرے گا۔
ایسے ہی ابو داود، نسائی، ابن ماجہ وابن حبان اور مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تقوم الساعة حتى يتباهى الناس فى المساجد
صحیح ابی داود 432، صحیح نسائی 665، ابن ماجہ 739، موارد الظمان 307، 308، صحیح الجامع 175/6/3، فتح الباری 539/1
اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک لوگ مساجد کے بارے میں فخر و مباہات میں مبتلا نہ ہو جائیں۔