مساجد کے قصہ خواں
حقیقت تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو مساجد میں بر سر منبر موضوع و من گھڑت اور باطل روایات و حکایات بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔ اور سمجھتے ہیں کہ انہی کہانیوں سے تو خطبہ و تقریر میں رنگ آتا ہے۔ اور پھر وہ صحیح اور غیر صحیح میں تمیز کیے بغیر اپنی لچھے دار تقریروں میں یہ قصے، کہانیاں بیان کرتے رہتے ہیں۔ انہیں خطباء و واعظین کی بجائے مساجد کے قصہ خواں کہنا چاہیے۔ جنہیں امام غزالی نے اپنی کتاب ”احیاء علوم الدین “میں یہی نام دیا ہے۔ اور مساجد کے منکرات یعنی مساجد میں مروج غلط امور کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
مساجد کے منکرات میں سے ہی قصہ خواں اور واعظین کا وہ کلام بھی ہے، جو بدعت پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی قصہ خواں جھوٹے واقعات بیان کرے تو وہ فاسق ہے۔ اسے ٹوکنا ضروری ہے۔ اور اگر کوئی واعظ بدعتی ہو تو اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا چاہیے۔
بحوالہ اصلاح المساجد ص 149,150
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مساجد میں صرف غلط یا فضول قسم کی شعر گوئی ہی ممنوع نہیں۔ بلکہ ایسی وعظ گوئی اور قصہ خوانی بھی ممنوع ہے۔ جس کی بنیاد ہی ضعیف و موضوع یا کمزور اسناد والی من گھڑت و جعلی روایات پر رکھی گئی ہو۔ ہاں اگر لاعلمی کی وجہ سے ایسا کچھ ہو جائے تو الگ بات ہے۔ مسجد میں کچھ کہنے سے پہلے اپنے آپ کو اس کا اہل بنانا چاہیے۔ جو کچھ کہنے کا خیال ہو اس کی تحقیق و تیاری کر لینی چاہیے تا کہ اس وعید سے بچ سکیں۔
غرض ان تمام امور سے مساجد جیسے مقدس مقامات کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ اور متولیان مساجد کا فرض بنتا ہے کہ اگر انہیں غیر عالم ہونے کی وجہ سے خود توفیق نہ ہو تو کم از کم اہل علم کے تعاون سے اپنی مساجد کو ایسے امور سے بچانے کا اہتمام کریں۔ کیونکہ مساجد کے تقدس و احترام کا تقاضا یہی ہے۔