غیر مسلموں کا مساجد میں داخل ہونا
مسجد حرام میں یہودیوں، عیسائیوں، صنم پرستوں، ملحدوں اور کیمیونسٹوں سمیت کسی بھی کافر کا داخل ہونا جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا» [التو بة: 28]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بات یہی ہے کہ مشرک لوگ نا پاک ہیں، پس وہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔“
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے منع کر دیا ہے۔ اور مطلقا جب مشرک بولا جائے تو اس میں یہود و نصاری بھی داخل ہوتے ہیں، لہٰذا کسی مشرک کا مسجد حرام میں داخل ہونا جائز نہیں، نہ کسی یہودی کا، نہ کسی عیسائی کا اور نہ ان دونوں کے علاوہ کسی دوسرے مشرک ہی کا، بلکہ یہ مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے۔
لیکن جو باقی مساجد ہیں تو ان میں کسی مصلحت اور ضرورت کے تحت ان کا داخل ہونا جائز ہے اور اس میں مدینہ طیبہ بھی شامل ہے، اگرچہ مدینہ کی اپنی خصوصیت ہے لیکن اس مسئلے میں اس کی مساجد دیگر علاقوں کی مساجد ہی کے مانند ہیں، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مسجد نبوی میں کافر کو باندھا اور وفد ثقیف مسلمان ہونے سے پہلے جب مسجد میں داخل ہوا تو آپ نے انہیں وہیں رکھا۔ اسی طرح عیسائیوں کا وفد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں داخل ہوا، لہٰذا یہ اس کی دلیل ہے کہ مسجد نبوی میں مشرک کا داخل ہونا جائز ہے، اسی طرح دیگر مساجد میں تو ضرورت کے وقت بدرجہ اول وہ داخل ہو سکتے ہیں۔ سوال کرنے کے لیے یا کسی دوسری ضرورت کے لیے کسی درس سے مستفید ہونے کے لیے یا اسلام قبول کرنے یا اظہار اسلام کے لیے یا اس جیسے کسی مقصد کی خاطر۔
نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی مصلحت ہو تو اس کا داخل ہونا جائز ہے، اگر کوئی مصلحت نہ ہو تو پھر اس کو مسجد میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ خدشہ ہو کہ یہ مسجد میں داخل ہو کر مسجد کا فرنیچر خراب کر دے گا یا گندگی پھیلائے گا تو اس کو منع کر دیا جائے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 380/1]