مساجد میں شعر گوئی
اور انہی دونوں حدیثوں میں سے پہلی حدیث میں دوسری بات یہ مذکور ہے کہ مسجد میں شعر گوئی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے:
وأن ينشد فيه شعر
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ مسجد میں فضول شعر گوئی کی جائے۔
اور شارح بخاری لکھتے ہیں کہ اس موضوع کی متعدد احادیث ہیں لیکن ان سب کی اسناد پر کلام کیا گیا ہے۔ البتہ یہ حدیث جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے، اس کی سند کو بعض محدثین نے حسن قرار دیا ہے۔ اور اس کی سند ابن عمر رضی اللہ عنہ تک تو صحیح ہے۔ لہذا بقول حافظ ابن حجر جو لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے نسخہ کو صحیح قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔
اور ممانعت والی حدیث کے علاوہ صحیح بخاری و مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، مسند حمیدی، ابن حبان، ابن خزیمہ، عبد الرزاق، بیہقی، شرح السنہ بغوی و طحاوی و مستدرک حاکم اور دیگر کتب احادیث میں ایک واقعہ معروف ہے۔ کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جو شاعر و مداح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے معروف ہیں۔ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ کفار و مشرکین کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو یا مذمت میں کہے گئے اشعار کا جواب دیں اور فرمایا تھا:
يا حسان أجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
اے حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں ان کفار کی ہجو کا جواب دو۔
اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
اللهم أيده بروح القدس
مسلم 1713 شرح السنہ 374/2 مفصل تخریج کے لیے ملاحظہ فرمایئں الاحسان ترتیب ابن حبان 532/4 تا 534۔ تخریج حدیث 1653
اے اللہ! ان کی حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے مدد فرما۔
اور بعض طرق میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو مسجد میں شعر کہتے ہوئے سنا تو تعجب کے انداز سے فرمایا کہ تم مسجد میں شعر گوئی کر رہے ہو۔ تو انہوں نے جواباً فرمایا تھا:
كنت أنشد فيه وفيه من هو خير منك
بخاری مع الفتح 304/6، صحیح ابی داود 1491. مسلم مع نووی 45/46/8
”میں اس وقت بھی اس مسجد میں شعر کہا کرتا تھا، جب اس میں آپ سے بدرجہا بہتر شخصیت موجود تھی۔ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)“
اور پھر ساتھ ہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں قسم دے کر پوچھا کہ تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ اے حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کفار کو جواب دے۔ اور دعا فرمائی کہ اے اللہ! حسان کی حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے مدد فرما۔ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہاں کہہ کر ان کی تصدیق کی۔
اور باب الشعر فی المسجد میں امام بخاری رحمہ اللہ جو متن لائے ہیں۔ اس سے بقول ابن بطال یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی شعر گوئی مسجد نبوی میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تھی۔ لیکن صحیح بخاری ہی کے ایک دوسرے مقام کتاب بدء الخلق کے باب ذکر الملائکہ میں وارد حدیث کے متن میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا:
أجب عني
ایضا
میری طرف سے جواب دو۔
ارشاد نبوی کے ان دو لفظوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مسجد نبوی میں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پیش آیا تھا۔ بلکہ ابو داؤد و ترمذی شریف اور شرح السنہ و مسند احمد میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں تو بڑی واضح صراحت موجود ہے۔ چنانچہ وہ بیان فرماتی ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينصب لحسان منبرا فى المسجد فيقوم عليه يهجو الكفار
صحیح ابی داود 1493. صحیح ترمذی 2282 ۔ الحاکم 487/3
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھوایا کرتے تھے، جس پر چڑھ کر وہ کفار کی ہجو میں شعر کہا کرتے تھے۔
اب ایک طرف ممانعت کی احادیث ہیں تو دوسری طرف جواز کی، ان ہر دو طرح کی احادیث سے جو اختلاف سابقاً نظر آتا ہے۔ اس سے پریشان مت ہوئیے۔ محدثین کرام اور اہل علم نے ان دونوں طرح کی احادیث کے مابین مطابقت و موافقت پیدا کر کے اس اختلاف کو رفع کر دیا ہے۔
دونوں طرح کی احادیث میں مطابقت و موافقت
مساجد کی شعر گوئی سے متعلقہ دو طرح کی احادیث گزری ہیں۔ جن میں بعض میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں شعر گوئی سے منع فرمایا۔ جب کہ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتب کی بعض احادیث میں وارد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خود عمل مبارک سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ناجائز نہیں ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ کفار و مشرکین جو میری ہجو میں شعر کہہ رہے ہیں۔ تو تم میرے دفاع کے لیے ان کا جواب دو۔ اور اس غرض کے لیے وہ مسجد میں بر سر منبر شعر گوئی کیا کرتے تھے۔
ان دو طرح کی احادیث میں جو اختلاف نظر آتا ہے، محدثین کرام اور اہل علم نے اسے رفع کرنے کے لیے کہا ہے کہ:
اولاً:
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی شعر گوئی عام سی شاعری کی طرح نہیں تھی کہ جس میں کوئی ایسی ویسی بات ہوتی۔ بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کو ان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی میں کہے گئے ہجو یہ اشعار کا جواب دینے کا حکم ملا تھا۔
ثانیاً:
یہ کہ مسجد میں ایسے اشعار پڑھنے کی ممانعت ہے جن کا تعلق عہد جاہلیت سے ہو، اور ان میں ”ہمچو ما دیگرے نیست“ کا متکبرانہ نظریہ۔ بلا وجہ کا غلو اور ایسے ہی دیگر جاہلانہ امور کا تذکرہ ہو، باطل ولغو قسم کی گفتگو ہو، گل و بلبل، شراب و شباب اور غازہ ورخسانہ کا ذکر ہو تو گویا جاہلانہ اور عاشقانہ ہر دو طرح کی شاعری ہو تو ایسے اشعار کی ممانعت ہے۔ اور جو اشعار ایسے ہوں جو حق بات پر مبنی ہوں تو وہ مسجد میں بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ خبیث لغو شعر یا بیہودہ گفتگو احترام و تقدس مسجد کے منافی ہے۔ جب کہ اچھے اور معنی برحق میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔
فتح الباری 548/1 و تحقیق شرح السنہ 374/12
اور یہاں اچھے برے اور حق و ناحق قسم کے اشعار کے مابین امتیاز کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہر سلیم فطرت مسلمان یہ امتیاز کر سکتا ہے۔ البتہ یہاں ایک بات بطور خاص ذہن نشین کر لیں کہ مساجد میں ایسے اشعار پڑھے تو جا سکتے ہیں.
جن میں توحید باری تعالیٰ کو اچھے پیرائے میں پیش کیا گیا ہو. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت و رسالت کا بیان ہو. اتباع کتاب و سنت، اطاعت الہی اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رغبت دلائی گئی ہو. حسن اخلاق کو اختیار کرنے کی تلقین ہو، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر ابھارا گیا ہو۔ اور اس سب کچھ کے لیے اچھی اور صاف ستھری زبان استعمال کی گئی ہو۔
اب ایسے اشعار کو حمد کہیں یا نعت، نظم کہیں یا کچھ اور، ان کی گنجائش تو ملتی ہے۔ لیکن اگر کسی شاعر یا نعت گو نے اپنے کلام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کے بھیس میں ایسی باتیں کہی ہوں۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے منافی، بلکہ حقیقت کے بھی خلاف ہوں۔ تو ایسے اشعار سے مساجد کو پاک و محفوظ رکھنا تو کجا۔ انہیں تو کہیں بھی نہیں پڑھنا چاہیے۔ اور نہ ہی سننا چاہیے۔ اور یہی معاملہ ایسی حمد کا بھی ہے۔
مثلاً کوئی شاعر راہ صواب سے ہٹ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے اور ہر چیز میں ہے۔ جسے علوی یا وحدۃ الوجود کے باطل عقیدہ والے معتزلہ سے متاثر ہو کر تو ایسے شاعر کے اشعار کو مسجد سے نہیں اپنے گھر کی یا دفتر کی لائبریری سے بھی دور رکھیں۔ اور اپنی مجلسوں میں بھی ایسے لوگوں کی پذیرائی نہیں ہونی چاہیے۔
ایسے ہی ذات باری تعالیٰ یا صفات باری تعالیٰ سے متعلق شرکیہ اشعار بھی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخیاں شمار ہونے والے اشعار بھی ہیں۔ جنہیں اگرچہ نعت ہی کیوں نہ کہا جاتا ہو۔ جیسے کوئی کہے کہ:
اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے
جو کچھ لینا ہے مانگ لیں محمد سے
اور حمد کی نسبت نعت میں شعراء سے کم علمی یعنی علم دین کی کمی کی وجہ سے بہت کوتاہیاں اور لرزشیں ہوئی ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کوئی مصنف مزاج آدمی جس کا عقیدہ بھی اہل سنت کے متفقہ عقائد کے مطابق ہو، آج تک لکھے جانے والے اردو نعتیہ کلام کا ذخیرہ اپنے سامنے دھر لے، اور حق و ناحق یا صحیح و غیر صحیح اشعار کو الگ الگ کرتا چلا جائے۔ تو بعید نہیں کہ غلط عقائد، غلو و مبالغہ آمیزی، نام نہاد عقیدت، مگر فی الحقیقت جہالت جیسے عوامل کی تاثیر میں لکھے جانے والے ناحق و غیر صحیح اشعار کا پلڑا ہی بھاری نکلے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ بھلا ایسے اشعار مساجد میں پڑھے جانے بلکہ گائے جانے کے قابل کہاں ہیں۔ اور یہ گائے جانے کا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ عوام کا مزاج تو بگڑا ہی تھا۔ شاعروں نے بھی ”چلو تم ادھر جدھر کی ہوا ہو“ کی رو سے ہوا کا رخ دیکھ کر فلمی گانے پڑھے یا سنے۔ اور پھر انہی کے ردیف و قافیہ یا طرز پر نعتیہ اشعار بھی کہہ دیے۔ جنہیں پھر ان گانوں کی طرز پر ہی سنایا جاتا ہے۔
اب اگر ایسے اشعار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں مبالغہ و غلو جیسی صفات یا گستاخیوں اور شرکیہ عقائد و نظریات پر بھی مشتمل ہوں تو ایسے اشعار کو مساجد میں پڑھنا تو کجا، کہیں بھی پڑھنا کیسے روا ہو سکتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کے پرانے نام کو اس کے معنی و مفہوم کے صحیح نہ ہونے اور اسے ایک طرح سے بھلا دینے کے لیے یثرب کا نام ”طیبہ“ و ”طابہ“ رکھا اور جو مدینة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، مدینہ طیبہ یا مدینہ منورہ ہے۔ اور اسے اس کے پرانے نام سے یاد کرنے کو مکروہ قرار دیا۔ آج کا نعت گو اور نعت خواں اشعار میں پھر یثرب ہی کہنے اور سنانے پر اصرار کرے تو ایسے شخص کے اشعار کو، اور اسی طرح کے دوسرے امور غیر صحیحہ پر مشتمل اشعار کو مساجد میں پڑھنا روا نہیں ہو سکتا۔ اور بعینہ کلام یا نعتوں میں کون کون سے غیر صحیح امور پائے جاتے ہیں۔ان میں سے تقریباً بڑے امور کا تذکرہ کسی حد تک ہمارے سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ پروگرام میں آچکا ہے۔ جو آپ سن چکے ہیں۔ (الحمداللہ سیرۃ النبی ﷺ کے پروگرام بھی اب اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے چھپ چکے ہیں۔ اور اس کتاب کا نام سیرۃ امام الانبیاء ﷺ ہے۔)
ثالثاً:
ان تفصیلات سے قطع نظر مساجد میں شعر گوئی کے جواز و عدم جواز میں موافقت پیدا کرنے کے لیے اہل علم نے جو تیسری بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ صحیح قسم کے اشعار کے کبھی کبھی مسجد میں پڑھ لینے میں حرج نہیں، لیکن اگر یہ بکثرت ہوتی کہ اہل مسجد کو تعلیم و تدریس اور ذکر و تلاوت قرآن وغیرہ سے روکنے کا باعث بنے تو ایسی شعر گوئی بھی ممنوع ہے۔