مسئلہ فدک پر فریقین کے دلائل پر ایک تحقیقی جائزہ

مسئلۂ فدک پر شِیعہ مؤقف کا سنّی نکتۂ نظر سے جائزہ اور اس کا تفصیلی ردّ

(مکمل حوالہ جات اور دلائل کے ساتھ)

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔ اما بعد!

مسئلۂ فدک اسلامی تاریخ کے اہم مگر متنازعہ موضوعات میں سے ایک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد یہ بحث سامنے آئی کہ فدک کی ملکیت کس کی تھی اور کیا یہ ازواجِ مطہرات و اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی موروثی جائیداد تھی یا نہیں؟ شیعہ مؤقف یہ ہے کہ فدک نبی کریمؐ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بطورِ ہبہ (گفٹ) یا وراثت دے دیا تھا، جسے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (نعوذ باللہ) ناحق چھین لیا۔ اس مضمون میں ہم قرآن، احادیثِ صحیحہ، اور تعاملِ صحابہؓ و تابعینؒ کی روشنی میں سنّی نقطۂ نظر کو واضح کریں گے اور اس شبہے یا اعتراض کا تفصیلی رد پیش کریں گے جو شیعہ کتب میں ملتا ہے۔


1. فدک کا جغرافیائی و تاریخی پسِ منظر

(الف) فدک کیا تھا؟

فدک خیبر کے قریب واقع ایک مشہور گاؤں یا علاقہ تھا جو یہودیوں کی بستی تھی۔ سن 7 ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تو فدک کے یہودیوں نے بغیر جنگ کے صلح کی بنیاد پر اپنی زمینیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دیں۔ چونکہ یہ علاقہ بغیر جنگ کے حاصل ہوا تھا، اس لیے یہ بطورِ خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مِلک قرار پایا (کیوں کہ قرآن مجید کی رُو سے جو علاقہ جہاد و قتال کے بغیر حاصل ہو، وہ رسول اللہؐ کا حق ہوتا ہے، ملاحظہ ہو سورۃ الحشر 59:6-7

(ب) رسول اللہؐ کا فدک میں تصرف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زمین سے حاصل ہونے والی آمدنی کو عمومی طور پر مسلمانوں کے اجتماعی مفادات، مسلمانوں کی فلاح و بہبود، مسافروں کی مدد اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات وغیرہ پر خرچ فرمایا۔ کسی مخصوص شخص کو یہ زمین مستقل طور پر ہبہ نہیں کی گئی۔ یہ بات معتبر ترین کتبِ حدیث اور تاریخ سے ثابت ہے۔


2. شیعہ مؤقف کا خلاصہ

شیعہ مؤرخین و محدثین کا عام مؤقف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں فدک بطور ہبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کر دیا تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وراثت کا مسئلہ تھا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، فدک کی وراثت کی حقدار تھیں۔ بعد ازاں جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو (معاذ اللہ) انھوں نے یہ حق غصب کرتے ہوئے حضرت فاطمہؓ سے چھین لیا۔ شیعہ کتب میں اس پر شدید اعتراضات کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات صحابہؓ کے خلاف سخت زبان استعمال کی جاتی ہے۔


3. سنّی نقطۂ نظر کے بنیادی دلائل

اہلِ سنّت کے ہاں اس مسئلے پر بنیادی ماخذ قرآن و سنت اور تعاملِ صحابہؓ ہے۔ اس ضمن میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

3.1 حدیثِ "لَا نُوَرِّثُ، مَا تَرَکْنَا فَہُوَ صَدَقَۃٌ”

سب سے بنیادی اور واضح دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خود بیان فرمایا کہ:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: اِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَا نُوَرِّثُ، مَا تَرَکْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ
(صحیح البخاری، کتاب الفرائض، حدیث نمبر 6726؛ صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، حدیث نمبر 1758)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم (انبیاء) میراث نہیں چھوڑتے، جو کچھ بھی ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔”

یہ حدیث حضرت ابوبکرؓ نے بیان کی تو دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس کی تائید کی، اور کسی صحابی سے اس کی تردید یا انکار ثابت نہیں۔ اس لیے اس معاملے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ اصولی موقف اختیار کیا کہ فدک نبی کریمؐ کے ترکہ میں بطورِ وراثت منتقل نہیں ہو سکتا، کیوں کہ انبیاء علیہم السلام میراث نہیں چھوڑتے۔

3.2 حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دعویٰ ہبہ اور اس پر شرعی تقاضا

بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہؓ نے اس زمین کو بطور وراثت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبہ فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواباً فرمایا کہ اگر یہ ہبہ تھا تو شرعاً اس کی گواہی یا ثبوت پیش کیا جائے، کیوں کہ مالِ عام (یا سرکاری تحویل کے مال) میں ہبہ ثابت کرنے کے لیے شرعی طریقہ کار ضروری ہوتا ہے۔ اس پر حضرت فاطمہؓ اپنے حق میں کوئی شرعی شہادت نہ پیش فرما سکیں۔ اس لیے خلیفۂ وقت کے طور پر حضرت ابوبکرؓ نے یہ مال کسی ایک فرد کے حوالے نہیں کیا بلکہ سابقہ طرزِ عمل (یعنی عمومی مفاد میں خرچ کرنے) کو برقرار رکھا۔

  • شیعہ کتب میں جو روایات نقل کی جاتی ہیں کہ حضرت علیؓ اور حضرت ام ایمنؓ نے گواہی دی، وہ درایت اور سند کے لحاظ سے محلِ نظر ہیں، علاوہ ازیں کم از کم دو مرد گواہوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت درکار ہوتی ہے (سورۃ البقرہ 2:282) اور اس مسئلے میں مزید قرائن و شواہد بھی طلب کیے جاسکتے تھے۔ چنانچہ یہ دعویٰ شرعی تقاضے پورے نہ کرسکا۔

3.3 خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام کا اتفاقی عمل

فدک کے متعلق یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دور میں بھی یہی پالیسی برقرار رہی۔ حتیٰ کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ خود خلیفہ بنے تو آپ نے بھی فدک کو اپنے ذاتی طور پر نہ لیا، بلکہ اسے عام اموالِ فے کی طرح چلایا۔ اگر فدک فی الواقع ذاتی ملکیت تھی یا اس پر استحقاقِ وراثت یقینی تھا، تو حضرت علیؓ اسے بحیثیت خلیفہ اپنے زیرِ تصرف لاکر ذاتی ملکیت کا اعلان کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام خلفاء اور صحابہ کرامؓ کا اس مسئلے پر اجماع تھا کہ یہ کوئی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ فے کے حکم میں تھا اور عمومی مفاد کے لیے رکھا گیا تھا۔

  • حوالہ جات:

ابن قدامہ المقدسی، المغنی، ج 9، ص 296-297

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، جلد 6، کتاب الفرائض کے تحت

3.4 اہلِ بیتِ اطہار کا عمومی طرزِ عمل

اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کا عمومی کردار یہ تھا کہ وہ ریاستی معاملات میں شریعت کے ضابطوں کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔ اگر واقعی فدک ان کا ثابت شدہ حق ہوتا تو وہ اسے امت کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ رکھ سکتے تھے۔ لیکن تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم کے ادوار میں اس پر کوئی مستقل تنازعہ باقی نہیں رہا۔ اہلِ بیت نے اسلام اور امت کی مصلحت کو ہمیشہ ذاتی مال و دولت پر ترجیح دی، اور کسی فتنہ اور افتراق کو جنم نہ دیا۔


4. شیعہ اعتراضات کا جائزہ اور مختصر رد

  1. اعتراض: حضرت ابوبکرؓ نے جان بوجھ کر اہلِ بیتؓ کا حق غصب کیا۔
    جواب: اہلِ سنّت والجماعت کے نزدیک تمام صحابہ کرامؓ عادل ہیں، اور قرآن میں ان کی ستائش موجود ہے (سورۃ التوبہ: 100، سورۃ الفتح: 29 وغیرہ)۔ حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ و امیر المؤمنین کی حیثیت سے شرعی اصول "لَا نُوَرِّثُ…” کی روشنی میں فیصلہ کیا۔ ان کے عمل کی تائید دیگر تمام صحابہ نے بھی کی، جن میں بنی ہاشم کے متعدد افراد موجود تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر سب لوگ ناحق پر متفق ہوجاتے؟

  2. اعتراض: حدیث "لَا نُوَرِّثُ” کا انکار یا اس کی سند کو کمزور بتانا۔
    جواب: یہ حدیث متفق علیہ (صحیح بخاری و مسلم دونوں میں) اور تواترِ معنوی کے درجے میں ہے۔ اس کی سند انتہائی مضبوط ہے اور اسے حضرت ابوبکرؓ کے علاوہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عائشہؓ، اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی روایت کیا ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا رد کرنا علمی لحاظ سے درست نہیں۔

  3. اعتراض: فدک ہبہ ہوچکا تھا، وراثت کا سوال ہی نہیں۔
    جواب: اگر فدک ہبہ ہوا ہوتا تو شرعی تقاضوں کے مطابق اس کا ثبوت ہونا چاہیے تھا۔ ہبہ کے لیے قبضہ میں لینا بھی شرط ہے۔ لیکن حضرت فاطمہؓ نے کبھی اس زمین کی ملکیت یا قبضہ کا عملی مظہر دکھایا ہو، تاریخ میں اس کا کوئی معتبر ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا اس دعویٰ کے لیے درکار شرعی شہادت موجود نہیں۔

  4. اعتراض: حضرت علیؓ نے اپنے دورِ خلافت میں حالاتِ مجبوری کی وجہ سے فدک کا دعویٰ نہ کیا۔
    جواب: یہ دعویٰ محض ایک مفروضہ ہے۔ خلفائے ثلاثہ کے زمانے میں تو ممکن تھا کہ بہ جبر ان سے فدک چھینا گیا ہو (حالانکہ یہ بھی غلط بات ہے)، لیکن حضرت علیؓ کے زمانے میں تو خود وہی حاکمِ وقت تھے۔ اگر وہ اس کو ذاتی و خاندانی حق سمجھتے تو آسانی سے اپنی ملکیت میں لے سکتے تھے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔


5. اہم حوالہ جات اور مصادر

  1. صحیح بخاری

    • کتاب الفرائض، حدیث نمبر 6726 (لَا نُوَرِّثُ…)
    • کتاب الخمس، بعض روایات میں فدک کا تذکرہ۔
  2. صحیح مسلم

    • کتاب الجہاد والسیر، حدیث نمبر 1758۔
  3. سنن ابی داود، سنن نسائی، سنن ترمذی

    • ان کتبِ حدیث میں بھی انبیاء علیہم السلام کے عدمِ وراثت کے حوالے سے متفرق احادیث وارد ہوئی ہیں۔
  4. تاریخی کتب

    • تاریخ طبری (محمد بن جریر الطبری)
    • البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)
    • تاریخ ابن خلدون
  5. علمی اور فقہی کتب

    • المغنی (امام ابن قدامہ مقدسی)
    • فتح الباری شرح صحیح البخاری (حافظ ابن حجر عسقلانی)
    • شرح مسلم للنووی (امام نووی)

ان تمام مصادر میں فدک سے متعلقہ روایات اور ان کی تشریحات موجود ہیں جو واضح طور پر یہ بتاتی ہیں کہ صحابہ و اہلِ بیتؓ میں یہ مسئلہ نبی کریمؐ کی وفات کے فوراً بعد ہی طے ہوگیا تھا اور حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ کسی ذاتی غرض پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس حدیث نبویؐ اور اصولِ شریعت پر مبنی تھا کہ "ہم انبیاء کوئی میراث نہیں چھوڑتے۔”


6. نتیجۂ بحث

  1. قرآن و سنت کی رُو سے انبیائے کرام علیہم السلام کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے، وہ وراثت میں منتقل نہیں ہوتا۔
  2. اگر ہبہ کیا جاتا تو شرعی طور پر اس کے ثبوت کے لیے ضروری گواہی اور قبضہ وغیرہ کا ہونا لازم تھا؛ اس ضمن میں کوئی صحیح سند سے ایسی شہادت موجود نہیں۔
  3. خلفائے راشدین کے ادوار میں فدک ریاست کے زیرِ انتظام رہا اور اس کا مصرف عمومی فلاح و بہبود اور اہلِ بیتؓ کے اخراجات پر ہوتا رہا۔
  4. خود حضرت علیؓ نے دورِ خلافت میں اس طرزِ عمل کو برقرار رکھا، جس سے اجماعِ صحابہ و اہل بیت ثابت ہوتا ہے۔
  5. شیعہ کتب میں ملنے والے اعتراضات روایات کی سند اور درایت دونوں اعتبار سے کمزور ہیں اور جمہور اہلِ سنت کے نزدیک ناقابلِ قبول ہیں۔

ان نکات سے ثابت ہوا کہ اس معاملے میں نہ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کوئی ذاتی یا سیاسی غرض رکھی اور نہ ہی نعوذ باللہ اہلِ بیتِ اطہار کا کوئی جائز حق غضب کیا۔ یہ مسئلہ محض تاریخی یا فقہی اختلاف نہیں بلکہ اس کے ذریعے بعض افراد نے خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ پر اعتراضات کیے، جن کا علمی و تاریخی لحاظ سے کوئی وزن نہیں۔

آخر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اہلِ بیتؓ کے مقام و مرتبے اور ان کے فضائل میں اہلِ سنّت و الجماعت کا عقیدہ انتہائی واضح اور مستحکم ہے۔ فدک کے مسئلے میں اختلاف کی بنیاد مال و دولت کی حرص نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی پاسداری ہے۔ اہلِ بیتؓ کی شان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ امت کے اندر کسی تقسیم یا افتراق کا باعث نہ بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کو صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ نے اپنی آپس کی محبت اور خیر خواہی سے جلد سلجھا لیا، جبکہ بعد کے ادوار میں کچھ لوگوں نے اسے سیاسی یا مسلکی ہتھیار بنا لیا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو حق سمجھ کر اس کی اتباع کرنے اور باہمی احترام کو ملحوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


واللہ اعلم بالصواب

وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1