مریضہ عورت کے لیے اسقاط حمل کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

ضرورت کے تحت اسقاط حمل کا حکم

سوال:

میری بیوی بلڈ پریشر کی مریضہ ہے، اور حمل کا ہونا اس کی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، لہٰذا ڈاکٹروں نے اس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حاملہ نہ بنے، لیکن اللہ کے ارادے اور مشیت سے وہ حاملہ ہوگئی ہے اور اس کا حمل ابھی ابتدائی ہفتوں میں ہے، ڈاکٹر نے اس کو اسقاط حمل کا مشورہ دیا ہے۔ مگر وہ ایسا کرنے سے باز رہی تاکہ وہ شریعت کی رائے معلوم کر لے تو کیا اس کے لیے اسقاط حمل جائز ہے؟

جواب:

حمل کو چالیس دن مکمل ہونے سے پہلے جائز اور حلال دوائی کے ذرایعہ اسقاط نطفہ (کیونکہ حمل ابتدائی چالیس دنوں میں نطفے کی شکل میں ہوتا ہے) جائز ہے، اور چالیس دن کے بعد بھی جائز ہے، بشرطیکہ یہ ثابت ہو جائے کہ حمل سے حاملہ کی جان کو خطرہ ہے، یا معتبر ڈاکٹروں کی تحقیق سے ثابت ہو جائے کہ حمل ان کے بدن کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں ہے۔
(عبداللہ بن عبدالرحمن الجبر )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: