مرزائے قادیان اور انگریزی گورنمنٹ‎

تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ، لاہور، پاکستان

جب سے مرزائیوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ ’’ وہ عقل و نقل کی رو سے امت مسلمہ سے الگ ایک غیر اسلامی فرقہ ہیں اور اس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کے آلہ کار تھے ‘‘ اس وقت سے مرزائی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور وہ مختلف طریقوں سے اس فیصلے کے تاثرات کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بعض اہل قلم نے اپنی جماعت کو اس طرح مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک ابتلاء ہے، جس سے اہل اللہ کو دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔ ایک رد عمل کی صورت میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی بعض جماعتوں اور بعض افراد کے وہ خیالات پیش کیے جارہے ہیں، جن میں انہوں نے انگریز گورنمنٹ کی مذ ہبی رواداری” پر ان کا شکر یہ اور ان سے وفاداری کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ ان کے اہل قلم کی طرف سے شیعہ سنی اور اہلحدیث سے متعلق بعض اس قسم کے حوالے پیش کیے جارہے ہیں۔ نیز بعض علمائے اہلحدیث کی وہ تحریریں پیش کی گئی ہیں، جس میں مذہبی آزادی پر گورنمنٹ کا شکر یہ ادا کیا گیا ہے۔ نیز جماعت اہلحدیث کیلئے ’’و ہابی‘‘ کے لفظ کے استعمال کی قانونی ممانعت پر اس کیلئے تشکر کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ ان اہل قلم کا کہنا ہے کہ اگر یہ حضرات انگریز سے وفاداری کے اظہار کے باوجود انگریز کے آلہ کار نہیں تو مرزا قادیانی کو اس قسم کے خیالات کی بنا پر انگریزوں کا آلہ کار کیونکر کہا جا سکتا ہے ؟ اس لئے ہم اس فرق اور نوعیت کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو انگریزوں سے متعلق مرزا قادیانی اور مسلمانوں کے بعض علماء کے طرز عمل میں ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اس فرق پر غور انتہائی ضروری ہے، جو مرزا قادیانی اور دیگر علماء کے جذبات وفاداری میں پایا جاتا ہے۔ علمائے اسلام میں سے جن حضرات نے انگریزوں سے وفاداری کا اظہار کیا، تو اس کی وجہ خود ان کے بقول یہ تھی کہ اس حکومت کے زیر سایہ مذ ہبی آزادی پوری طرح تحاصل ہے۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کے پاس قوت و طاقت اور اسباب و وسائل بھی نہیں، جن کے ذریعے وہ جنگ کر کے اسے دیس نکالا دے سکیں۔ اس لئے ایسے حالات میں وہ حکومت وقت سے بغاوت کے جواز کا فتویٰ صادر نہیں کرتے تھے اور ان حالات میں گور نمنٹ انگریزی سے وفاداری کو انسب سمجھتے تھے۔ تاہم یہ قطعی ہے کہ کسی بھی مسلمان عالم نے جہاد کو سرے سے منسوخ اور حرام قرار نہیں دیا اور نہ آخری زمانے میں آنے والے حضرت مہدی کو ’’خونی مہدی ‘‘ ہی کہا۔ اس کے بر عکس مرزا قادیانی نے نہ صرف یہ کہ پوری بلند آہنگی سے اس طرح انگریز کی حمایت کا صور پھونگا، جس سے اس شبہ کو تقویت پہنچتی ہے کہ یہ صاحب انگریزوں کے اشارہ ابرو پر ہی دعوائے نبوت پر ’’مجبور‘‘ ہوئے ، بلکہ خود بدولت کو ’’مہدیت‘‘ کے منصب پر فائز کرنے کیلئے مسلمانوں کے عقیدہ ’’آمد مہدی موعود ‘‘ کو ختم کرنے کی سعی کا کام کرتے ہوئے سیدنا مہدی کو ’’خونی مہدی‘‘ کا نام دیا۔
بہر حال اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
اول خود مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو انگریز کا خود کاشتہ پوداتسلیم کیا ہے۔ (تبلیغ رسالت ج ۷ ص ۱۹) اور خود کو گورنمنٹ کی خیر خواہی اور تائید میں یگانہ ، بینظیر و بے مثیل اور انگریز گور نمنٹ کیلئے بطور تعویذ اور پناہ (قلعہ) قرار دیا ہے۔ (نور الحق حصہ اول ص ۳۳۰۳۴) اور خود اپنے اور اپنی جماعت کیلئے سلطنت برطانیہ کو اپنی جائے پناہ تسلیم کیا۔ ( تریاق القلوب، ص ۶۲)
ثانياً:
اپنا مقصد بعثت ہی مرزا قادیانی نے خلق خدا کی اصلاح کی بجائے انگریز کی تائید واعانت بتایا ہے۔ اس نے مجھے اپنے قدیم وعدے کے موافق آسمان سے بھیجا، تا کہ میں حضور ملکہ معظمہ (وکٹوریہ) کے نیک اور بابرکت مقاصد کی امانت میں مشغول ہوں، اس (اللہ) نے مجھے بے انتہا بر کتوں کے ساتھ چھوا اور اپنا مسیح بنایا ، تا کہ وہ ملکہ معظمہ (وکٹوریہ) کے پاک اغراض کو خود آسمان سے مدد دے۔ (ستارہ قیصره ص ۱۰)
اے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند! خدا تجھے اقبال اور خوشی کے ساتھ عمر میں برکت دے۔ تیرا عہد حکومت کیا ہی مبارک ہے کہ آسمان سے خدا کا ہاتھ تیرے مقاصد کی تائید کر رہا ہے، تیری ہمدردی رعایہ نیک نیتی کی راہوں کو فرشتے صاف کر رہے ہیں۔ تیری ہی پاک نیتوں کی تحریک سے خدا نے مجھے بھیجا ہے۔ (ستارہ قیصرہ ص: ۱۵)
ثالثاً :
گورنمنٹ انگلشیہ کو خدا کی نعمت، عظیم الشان رحمت اور آسمانی برکت کہا اور انگریز گور نمنٹ کے شکر کو خدا کا شکر اور اس کے چھوڑنے کو خدا کا چھوڑ نا قرار دیا۔ (شہادت القرآن، ص: ۸۲)
رابطاً:
اپنا مذہب ہی آسمان پر خدا کی اور زمین پر حکومت برطانیہ کی اطاعت اور اس سے سر کشی کو خداور سول کی سرکشی قرار دیا۔ (شہادت القرآن ص: ۸۶)
خامسا ً:
انگریز گورنمنٹ کی حمایت و وفاداری میں پچاس ہزار کے قریب کتابیں، رسائل اور اشتهار تالیف و طبع کیے۔ (ستارہ قیصر و ص ۷۰)
انگریز سے متعلق مرزا صاحب کا یہ تحریری ذخیر ہ اگر جمع کیا جائے تو اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ ( تریاق القلوب ص : ۲۵)
سادساً :
سب سے بڑھ کر انگریز کے خلاف جہاد کو نہ صرف انتہائی پر زور الفاظ میں حرام اور منسوخ قرار دیا بلکہ انگریز کے خلاف دل میں جذ بہ بغاوت یاد شمنی رکھنے والوں کو احمق، سخت نادان، سخت جاہل، نا فهم ملاه ،دشن خدا، منکر نبی، شریر ، بد ذات، حرامی، بد کار ، نالائق، ظالم، چور، قزاق اور اسی قسم کے بیہودہ خطابات سے نوازا۔
سابعاً :
اس دور میں جہاں کہیں بھی انگریزوں اور مسلمانوں میں تصادم ہوا، امت مرزائیہ نے وہاں اپنے نبی کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کی تائید و حمایت کی بجائے انگریزوں کی تائید کی ، ان کے لئے فتح ونصرت کی دعائیں مانگیں اور مسلمانوں کی شکست اور انگریزوں کی کامیابی پر جشن فتح منایا۔ مثلاً : ۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم اول میں ترکوں کو جو شکست ہوئی اور بعض عرب علاقے ترکیہ کی اسلامی خلافت سے انگریزوں نے الگ کر دیے ، اس پر امت مرزائیہ کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ گورنمنٹ میری تلوار ہے، پھر ہم احمدیوں کو اس فتح (فتح بغداد) پر کیوں خوشی نہ ہو۔ عراق عرب ہو یا شام، ہم ہر جگہ اپنی تلوار کی چمک دیکھنا چاہتے ہیں۔ دراصل اس کے محرک خدا تعالی کے دو فرشتے تھے، جن کو گورنمنٹ کی مدد کیلئے خدا نے اتارا تھا۔(الفضل ۷ ستمبر ۱۹۱۸ء)
اس سے کچھ عرصہ پہلے روس نے اسلامی ترکیہ پر حملہ کرکے بعض علاقے ہتھیا لئے تھے۔ اس پر مرزائیوں کا رد عمل ملاحظہ ہو :
تازہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ روسی برابر ترکی کے علاقے میں گھستے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ظالم نہیں، اس کا فیصلہ درست اور راست ہے اور ہم اس کے فیصلے پر رضامند ہیں۔ (الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۱۴ء)
۲۷ نومبر ۱۹۱۸ء کو ترکوں کی مکمل شکست پر قادیان میں زبر دست چراغاں کیا گیا اور جشن منایا گیا۔
اس پر الفضل نے لکھا: یہ پر لطف اور مسرت انگیز نظارہ بہت مؤثر اور خوشنما تھا اور اس سے احمدیہ پبلگ کی اس عقیدت پر خوب روشنی پڑتی ہے، جو اسے گورنمنٹ برطانیہ سے ہے۔(الفضل ۱۳ نمبر ۱۹۱۸ء)
ثامناً:
مرزا قادیانی نے انگریزوں کی مخبری کا بھی کام کیا اور انہوں نے اپنی جماعت کی مدد سے ایسے نا فہم مسلمانوں کی ایک فہرست مع نام و پتہ مرتب کر کے گورنمنٹ کو پیش کی، جو ہندوستان کو دار الحرب سمجھتے تھے۔ (تبلیغ رسالت ج ۵ ص ۱۱)
ان وجوه هشت گونہ کی بنا پر مرزا قادیانی کی حکومت برطانیہ کی تائید و حمایت اور مسلمانوں کے بعض علماء کرام کی وفاداری اور شکریے میں جو زمین آسمان کا فرق ہے ، اسے پارٹی تامل سمجھا جا سکتا ہے۔ دونوں کے طرز عمل کو یکساں باور کرا کے مرزا قادیانی کی انگریز پر ستی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ دونوں کے درمیان الفاظ کی دروبست سے لے کر مفہوم و معنی تک میں جو فرق ہے، وہ اتنا عظیم ہے کہ اسے دس میں حوالے کیا، اس انداز کے سینکڑوں حوالے بھی ختم نہیں کر سکتے۔

جماعت اہلحدیث پر انگریز کی وفاداری کے الزام کی حقیقت

پھر اشاعۃ السنۃ” کے بعض حوالوں کو بنیاد بنا کر خاص طور پر جماعت اہلحدیث پر انگریز کی وفاداری کا الزام تو بہت ہی عجیب ہے۔ اگر کہ مولانا محمد حسین صاحب بٹالویؒ نے ایسے خیالات کا اظہار فرمایا ہے ، تو ا بھی قابل غور بات یہ ہے کہ کیا اہلحدیث صرف مولانا بٹالوی کی ذات ہے کہ انفرادی طور پر ان کے ایسے خیالات کو پوری جماعت اہلحدیث پر چسپاں کر دیا جائے ؟ وہ جماعت کے صرف ایک فرد تھے ، جو فی الواقع دوسرے بعض علمائے اسلام کی طرح بعض وجوہات کی بناء پر انگریز حکومت کو بہتر سمجھتے تھے ، لیکن کیا اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ان کے علاوہ علمائے اہلحدیث کی اکثریت انگریز کے خلاف مصروف جہاد رہی ! کیا علمائے صادق پور اہلحدیث نہیں تھے، جنہوں نے سید احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید کی شہادت کے بعد ان کی تحریک جہاد کو پورے عزم و حوصلہ سے آگے بڑھایا ! کیا یہ واقعہ نہیں کہ ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جس جماعت کے افراد سب سے زیادہ انگریزی مظالم کا شکار بنے ، وہ اسی جماعت کے افراد تھے۔ صرف ۱۸۶۳ ء سے لے کر ۱۸۷۰ء تک کے سات سالہ مختصر عرصے میں اس جماعت کے سرکردہ افراد کے خلاف پانچ عظیم مقدمات قائم کیے گئے ۔ الہ (۱۸۶۴ء)) پٹنہ میں دو مرتبہ (۸۶۵ او اور (۱۸۷۰ء) مالده (۱۸۷۰ء) راج محل (۱۸۷۰ء) ان مقدمات میں جماعت کے امراء و علماء کو تختہ دار پر کھینچا گیا۔ اس کے علاوہ کالے پانی اور ضبطی جائیداد کی انہیں سزائیں دی گئیں۔ جیل کے تاریک زندانوں کو اس جماعت کے دیوانوں نے آباد کیا اور ان مجاہدین کی سر گرمیوں نے انگریز کو بوکھلا کر رکھ دیا، جن کو وہابی کہا جاتا تھا، یہ وہابی کون تھے ؟ ہنٹر کی کتاب پڑھئے تو معلوم ہو گا کہ وہ ایک جماعت کے افراد تھے۔ بہر حال چند افراد کے سوا اہلحدیث کی اکثریت ازاول تا آخر انگریز سے بر سر پیکار رہی ہے۔ اس انداز کی انگریز کی کاسہ لیسی ہم نے کبھی نہیں کی ، جو آنجہانی مرزا قادیانی کا شعار ، بلکہ مذہب ہے۔

غور و فکر کا ایک اور زاویہ :

پھر اس بحث کا یہ پہلو بھی قابل غور و فکر ہے کہ مرزا صاحب نبوت کے دعویدار تھے ، جبکہ مسلمان علماء دعوائے نبوت کو کفر سمجھتے ہیں۔ بعض علماء کی انگریز سے وفاداری اور اس کا شکریہ اور مرزا قادیانی کے برٹش گورنمنٹ کی حمایت کو جزو ایمان بنانے کے مابین جو عظیم فرق ہے (جس کی ہم نشائدہی کر آئے ہیں) اس کو تھوڑی دیر کیلئے نظر انداز کر دیا جائے ، تب بھی یہ بات سوچنے والی ہے کہ غیر نبی افراد کے قدم ڈگمگا سکتے ہیں، ان پر مداہنت آسکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض موقع پر وہ اس عزیمت و استقامت کا ثبوت پیش نہ کر سکیں، جو کفر کے مقابلہ میں ضروری ہے اور غیر نبی افراد کیلئے بعض صورتوں میں ایسی رخصتوں پر عمل کی اجازت بھی ہے، لیکن انبیاء علیہم السلام نے کبھی ایسی مداہنت روا نہیں رکھی ، نہ انہیں اس کی اجازت دی جاتی ہے۔ کفر کے خلاف وہ ایک برہنہ تلوار اور اس راہ کی صعوبتوں کیلئے وہ کوہ استقامت و عزیمت ہوتے ہیں، وہ کبھی قوم کو درکی غلامی نہیں دیتے۔ لیکن مرزا قادیانی پتہ نہیں ’’نبوت‘‘ کی کون سی قسم سے سرفراز ہوئے تھے کہ انہوں نے کفر سے مقابلے کی بجائے اس کی اطاعت کو فرض اور جزو ایمان قرار دیا۔ قوم کو انگریز کی غلامی سے آزاد کرانے کی بجائے قوم میں خوئے غلامی کو پختہ تر کیا اور اپنے خدا سے انگریز کافر سے نجات کی دعا کی بجائے اس کی فتح و نصرت اور اس کے بقاء و استحکام کی دعا مانگتے رہے۔ فیاللعجب۔ کیا انسانی تاریخ میں اس کردار کا کوئی نبی یا مجدد پیش کیا جا سکتا ہے ؟ یہی وہ نکتہ ہے، جو اس بات کو صاف کر دیتا ہے کہ مرزا قادیانی اس اللہ کے فرستادہ نہیں تھے ، جو کفر سے مقابلہ کا حکم دیتا ہے، بلکہ اس برطانوی ڈپلومیسی کی پیداوار تھے، جس کا مقصد مسلمانوں میں افتراق وانتشار پیدا کرنا تھا۔
بنا بریں مرزائیوں کا اس مقام پر اپنے نبی کو بچانے کیلئے ایسے حوالے پیش کرنا، جن میں انگریز سے وفاداری کا اظہار کیا گیا ہے، بالکل بے محل ہے۔ محض انگریز سے وفاداری اور عدم وفاداری حق و باطل کی علامت نہیں، نہ اس نقطہ نظر سے کبھی حق و باطل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حضرات شیعہ بحیثیت مجموعی انگریز کے وفادار رہے ہیں، جس کا اظہار خود انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے، لیکن ان کے محض اس کردار کو بنیاد بنا کر کبھی ان کے متعلق نہیں کہا گیا کہ وہ اس بنا پر غلط ہیں۔ البتہ ایک نبی کے حق یا باطل ہونے کیلئے فیصلہ کن چیز یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کفر کی تائید کی یا اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ؟ قوم کو کفر کی غلامی سے آزاد کرانے کی کوشش کی یا اسے غلامی کی آہنی زنجیریں بدستور پہنے رہنے پر رضامند کیا۔ اس اعتبار سے بلاشبہ مرزائے قادیان کا کوئی کردار نبوت تو کجا، اصلاح و تجدید کے مقام سے بھی فروتر ہے کیونکہ کسی مصلح و محمد د اور کسی بڑے لیڈر نے بھی قوم کو درس غلامی نہیں دیا مرزا قادیانی بھی ایک عام آدمی ہوتے تو ان کے طرز عمل سے اعراض کر لینا ممکن تھا، لیکن انہوں نے اپنے متعلق نبوت و تجدید کا جو دعویٰ کیا ہے اور ان کے پیروکار جس طرح ان کی اس حیثیت و مجددیت (معاذ اللہ) کو منوانے پر مصر ہیں، اس کے پیش نظر اس کردار کو کہ ساری عمر انگریز کی حمایت میں ہی گزار دی، نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا یہ کردار ہی ان کے جھوٹا ہونے کیلئے ایک واضح دلیل ہے۔ افراد سے بڑی بڑی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ جن صلحاء کی تحریریں ’’الفرقان‘‘ میں شائع کی گئی ہیں، ان سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اسے اپنے افراد کی غلطیاں کہہ کر بھی ٹال سکتی ہیں۔ ان کا یہ اعتراف ان کے مسلک پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ لیکن کیا مرزائی حضرات اپنے نبی کے اس کردار کو غلط کہنے کی جرات کر سکتے ہیں ؟ اور کیا ایسا کرنے کی صورت میں نبوت کا قصر زمین بوس نہیں ہو جاتا ؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل