مرد کے لئے سونے کا استعمال
مسلمان ہونے کو لازم ہے کہ آپ شریعت اسلام کے پابند ہوں، اس کی حدود و قیود، ممنوعات و محکومات کا خیال رہے، خود سپردگی کی منزلوں میں اتر جائیں اور ذہن نشین کرلیں کہ اسلام نے جن چیزوں سے منع کیا ہے، وہ میرے فائدے کو منع کیا ہے، جن چیزوں کا حکم کیا ہے وہاں میرا نفع ملحوظ رکھا ہے، مالک کریم ہمارا مہربان ہے اور وہ جو حکم دیتا ہے، اسے مان لینے کا نام ہی اسلام ہے اللہ نے مردوں کے لئے کچھ چیزیں حرام قرار دی ہیں، ان میں سے ایک سونا بھی ہے دلائل ملاحظہ ہوں:
➊ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى خَاتَمًا مِّنْ ذَهَبٍ فِي يَدِ رَجُلٍ، فَنَزَعَهُ فَطَرَحَهُ، وَقَالَ : يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ إِلَى جَمْرَةٍ مِّنْ نَارٍ فَيَجْعَلُهَا فِي يَدِهِ، فَقِيلَ لِلرَّجُلِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُذْ خَاتِمَكَ انْتَفِعْ بِهِ، قَالَ : لَا ، وَاللهِ ، لَا أَخُذُهُ أَبَدًا وَّقَدْ طَرَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
’’رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اتار کر پھینک دی اور فرمایا : آپ انگارا ہاتھ میں لے لیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد کسی نے اس صحابی سے کہا کہ انگوٹھی اٹھا لیجئے اور اس سے فائدہ حاصل کیجئے، تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! نبی کریم ﷺ نے اسے پھینکا ہے کبھی نہیں اٹھاؤں گا۔“
(صحیح مسلم : ۲۰۹۰)
غورکیجئے نبی کریم ﷺ نے صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھ کر اسے اتا دیتے ہیں اور صحابی اسے اٹھانا بھی گوارا نہیں کرتے، گو کہ کسی اور ذریعے سے اسے استعمال میں لایا جا سکتا تھا، مگر رضائے رسول سے سر موانحراف کا یارا نہیں، ایک ہم ہیں، جو ذرا سی فراوانی دیکھ کر تمام احکام شریعت پس پشت ڈال دیتے ہیں اور سونے کی انگوٹھیاں انگلیوں میں جمانے لگتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ہماری زینت ہے۔ کیا نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر زینت کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں، سونا صرف عورت زینت ہے۔ مرد کے لئے نہیں مرد کی زینت چاندی ہے اور بس۔
➋ سیدنا ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَلْبَسْ حَرِيرًا وَلَا ذَهَبًا.
’’اللہ اور روز آخرت پر جو ایمان رکھتا ہے، ریشم اور سونا نہ پہنے۔“
(مسند الإمام أحمد : ٢٦١/٥، وسنده حسن)
➌ سیدنا ابوسعید خذریؓ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ رَجُلًا قَدِمَ مِنْ نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : إِنَّكَ جِئْتَنِي وَفِي يَدِكَ جَمْرَةٌ مِنْ نَارٍ.
’’نجران سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی، تو نبی کریم ﷺ نے اس سے چہرہ پھیر لیا اور فرمایا : آئے میرے پاس ہیں اور آپ کے ہاتھ میں انگارا ہے۔‘‘
(سنن نسائی : ۵۱۸۸ ، مسند الإمام أحمد : ١٤/٣، وسنده حسن)
➍ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ يَلْبَسُ خَاتَمًا مِّنْ ذَهَبٍ، فَنَبَذَهُ فَقَالَ : لَا أَلْبَسُهُ أَبَدًا فَنَبَذَ النَّاسُ خواتيَمَهُمْ.
’’رسول الله ﷺ سونے کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے، آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا : میں آئندہ کبھی سونے کی انگوٹھی نہیں پہنوں گا، تو صحابہ نے بھی انگوٹھیاں پھینک دیں۔“
(صحيح البخاري : ٥٨٦٧)
معلوم ہوا کہ مرد کے لئے سونا پہلے درست تھا، بعد میں منسوخ و ممنوع ہو گیا۔
➎ سیدنا براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں سے منع کیا تھا، ان میں سے ایک سونے کی انگوٹھی تھی۔
(صحيح البخاري : ٥٨٦٣)
فائدہ نمبر:➊
ابو سفرؒ بیان کرتے ہیں :
رَأَيْتُ عَلَى البَرَاءِ خَاتَمَا مِنْ ذَهَبٍ.
’’میں نے سیدنا براء بن عازبؓ کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی۔‘‘
(مصنف ابن أ شيبة : ٢٥١٥٧ ، شرح معاني الآثار : ٢٥٩/٤، وسنده صحيح)
اشکال ہے کہ راوی حدیث نے خود سونے کی انگوٹھی پہنی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا براء بن عازبؓ سونے کی یہ انگوٹھی پہننا خاص سمجھتے تھے صحیح حدیث ملاحظہ ہو :
محمد بن مالکؒ نے سیدنا براء بن عازبؓ سے سوال کیا کہ آپ نے سونے کی انگوٹھی کیوں پہن رکھی ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا تو اس میں سے سونے کی انگوٹھی بچ رہی، آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کی طرف نظر اٹھائی اور جھکالی، دوسری بار اٹھائی، تو پھر جھکالی، تیسری دفعہ اٹھائی تو مجھے بلایا۔ میں نبی کریم ﷺ کے پاس جا بیٹھا، آپ ﷺ نے انگوٹھی لی اور میری گٹی سے پکڑ کر فرمایا :
خُذِ الْبَسْ مَا كَسَاكَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ.
’’انگوٹھی پکڑ کر پہن لیجئے، یہ آپ کو اللہ اور اس کے رسول نے پہنائی ہے۔“
سیدنا براءؓ فرماتے ہیں کہ آپ مجھے وہ انگوٹھی اتارنے کا کیسے کہہ سکتے ہیں، جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے پہنائی ہو؟
(مسند الإمام أحمد : ٢٩٤/٤، مسند أبي يعلى : ۱۷۰۸، شرح معاني الآثار للطحاوي: ٢٥٩/٤، وسنده حسن)
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا براء بن عازبؓ انگوٹھی کی اپنے لئے تخصیص سمجھتے تھے، یوں نہیں کہ اس سے ممانعت وحرمت ختم ہو گئی ہو۔
فائدہ نمبر:➋
جن صحابہ سے سونے کی انگوٹھی پہننا ثابت ہے ممکن ہے ان تک سونے کی منسوخیت، حرمت اور ممانعت نہ پہنچی ہو۔
➏ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُحَلَّقَ حَبِيبَةً حَلْقَةً مِنْ نَارٍ فَلْيُحَلَّقْهُ حَلْقَةً مِّنْ ذَهَبٍ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُطَوّقَ حَبِيبَهُ طَوْقًا فَلْيُطَوِّقْهُ طَوْفًا مِنْ ذَهَبٍ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُسَوِّرَ حَبِيبَهُ سِوَارًا مِّنْ نَارٍ، فَلْيُسَوِّرْهُ سِوَارًا مِنْ ذَهَبٍ، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِالْفِضَّةِ فَالْعَبُوا بِهَا.
”جو اپنے دوست کو آگ کا کڑا پہنانا چاہے، وہ اسے سونے کا کڑا پہنا دے، جو اسے آگ کی زنجیر پہنانا چاہے، تو سونے کی زنجیر پہنا دے، جو اسے آگ کا کنگن پہنانا چاہے، سونے کا کنگن پہنا دے، ہاں چاندی آپ کے لئے ہے، اس سے کھیلئے۔“
(سنن أبي داود : ٤٢٣٦، وسنده حسن)
حافظ منذری نے اسے صحیح کہا ہے۔
(الترغيب والترهيب : ۲۷۳/۱)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا حرام اور عورتوں کے لئے حلال ہے۔
➐ سیدنا علی بن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ أَخَذَ حَرِيرًا فَجَعَلَهُ فِي يَمِينِهِ، وَأَخَذَ ذَهَبًا شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ : إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي.
’’نبی کریم ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم پکڑا اور بائیں ہاتھ میں سونا پکڑا اور فرمایا : یہ میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔“
(سنن أبي داود : ٤٠٥٧، سنن النسائي : ٥١٤٤ ، سنن ابن ماجه : ٣٥٩٥، وسنده حسن)
سنن ترمذی وغیرہ میں اس کے شواہد موجود ہیں۔
سیدنا عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
الْحَرِيرُ وَالذَّهَبُ حَرَامٌ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي ، وَحَلَالٌ لِإِنَائِهِمْ.
’’ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں پر حلال ہے۔“