مرد کا ستر
ناف اور گھٹنے کا درمیانی حصہ ہے جیسا کہ دلائل حسب ذیل ہیں :
➊ حدیث نبوی ہے کہ :
مابين السرة والركبة عورة
[حسن : إرواء الغليل 271 ، 247]
”ناف اور گھٹنے کے درمیان جو کچھ ہے ستر ہے ۔“
➋ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الفخد عورة
[صحيح : صحيح أبو داود 3389 ، كتاب الحمام : النهى عن التعرى ، أبو داود 4104 ، ترمذي 2798 ، أحمد 478/3 ، بخاري تعليقا 478/1 ، شيخ محمد صحبي حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على السيل الجرار 363/1]
” ران ستر ہے ۔“
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولا تبرز فخذك ولا تنظر إلى فخذ حبى ولا ميت
[ ضعيف : ضعيف أبو داود 867 ، ضعيف الجامع 6187 ، إرواء الغليل 269 ، أبو داود 4015 ، أيضا ، ابن ماجة 1460 ، حاكم 180/4 ، بزار 694]
”اپنی ران کو ظاہر مت کرو اور کسی کی ران مت دیکھو خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ہو۔“
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معمر رضی اللہ عنہ کو رانیں ننگی کیے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
با معمر غط فخذيك فإن الفخذين عورة
[ضعيف : المشكاة 3114 ، أحمد 290/5 ، بخاري تعليقا 478/1 ، حاكم 180/4 ، شيخ محمد صجي حلاق نے اسے حسن كہا ہے۔ التعليق على السيل الجرار 362/1]
” اے معمر ! اپنی رانوں کو ڈھانپ لو کیونکہ رانیں ستر میں شامل ہیں ۔“
ستر کے مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(شافعیؒ ، ابوحنیفہؒ) ران ستر میں شامل ہے۔
(مالکؒ ، احمدؒ، اہل ظاہرؒ ) صرف قبل اور دبر ہی ستر ہے۔
[نيل الأوطار 532/1]
(راجح) ران ستر میں شامل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
الفخذ عورة
” ران ستر ہے۔“
(ابن حجرؒ) حديث لا تبرز فخذك کے متعلق رقمطراز ہیں کہ ”یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ران ستر میں شامل ہے ۔“
[تلخيص الحبير 504/1]
(نوریؒ) اکثر علماء کا یہی موقف ہے کہ ران ستر میں شامل ہے ۔
[المجموع 175/3]
(شوکانیؒ ) حق بات یہی ہے کہ ران ستر میں شامل ہے ۔
[نيل الأوطار 532/1]
(البانیؒ ) ران ستر ہے ۔
[تمام المنة ص/ 160]
جن احادیث میں ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران ظاہر کی مثلا خیبر کے دن، [بخاري 371 ، أحمد 102/3] اور اسی طرح حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے اپنے گھر میں لیکن جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے سے ران کو ڈھانپ لیا۔
[حسن: إرواء الغليل 298/1]
وہ تمام احادیث گذشتہ مسئلے کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ :
أن القول أرجح من الفعل
[ نيل الأوطار 532/1-534 ، تمام المنة ص/ 159]
” بلاشبہ قول فعل سے زیادہ راجح ہے۔“
اور یہ فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔