سوال : حنفی حضرات مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں فرق روا رکھتے ہیں۔ اس کی شری حیثیت کیا ہے ؟
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی جو کیفیت وہئیت بیان فرمائی ہے اسے ادا کرنے میں مرد و زن برابر ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ اُصَلِّيْ [ بخاري، كتاب الأذان : باب رحمة الناس والبهائم 6008، أحمد 52/5، إرواء الغليل 213]
”تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ “
یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز کی ہئیت ایک جیسی ہے، سب کے لیے تکبیر تحریمہ، قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعائے استفتاح کا پڑھنا، سورۂ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفع الیدین، رکوع، قیام ثانی، رفع الیدین، سجدہ، جلسہ استراحت، قعدہ اولیٰ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ، تورک، درود اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پر پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں۔
عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک، مرد حالت قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں اور عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں، یہ فرق کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں۔
چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
➊ وَاعْلَمْ اَنَّ هٰذِهِ السُّنَّةَ تَشْتَرِكُ فِيْهَا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَلَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَهُمَا فِيْهَا وَكَذَالَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ فِيْ مِقْدَارِ الرَّفْعِ رُوِيَ عَنِ الْحَنَفِيَّةِ اَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ اِلَي الْاُذُنَيْنِ وَالْمَرْأَةُ اِلَي الْمَنْكِبَيْنِ لِاَنَّهُ اَسْتَرُ لَهَاوَلَا دَلِيْلَ عَلٰي ذٰلِكَ كَمَاعَرَفْتَ [نيل الأوطار 198/2]
”اور جان لیجیے کہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جو ان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو اور نہ کوئی ایسی حدیث ہی وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقدار کے فرق پر دلالت کرتی ہو۔ احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس کے لیے زیادہ ساتر ہے، لیکن اس کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ “
شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي التَّفْرِقَهِ فِي الرَّفْعِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ [فتح الباري 222/2، عون المعبود 263/1]
” مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں۔ “
➋ مردوں اور عورتوں کو حالت قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سینے پر باندھیں۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے علیحدہ حکم دینا کہ صرف وہی سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں، اس کے متعلق حنفیوں کے پاس کوئی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں۔
علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں :
فاعلم ان مذهب الامام ابي حنيفة ان الرجل يضع اليدين فى الصلاة تحت السرة و المرأة تضعهما علي الصدر ولم يرو عنه ولا عن اصحابه شيء خلاف ذٰلك [تحفة الأحوذي 213/1]
” پس جان لو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں۔ “
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وضعهما علي الصدر الذى ثبت فى السنة وخلافه اما ضعيف او لا اصل له “ [صفة صلاة النبى ص/ 88 ]
”اور سینے پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یاپھر بے اصل ہے۔ “
➌ حالت سجدہ میں مردوں کا اپنی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا، یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے، جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسا نہیں۔ “
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مُرْسَلٌ لَا حُجَّةَ فِيْهِ رَوَاهُ اَبُوْ دَاؤُدَ فِي الْمَرَاسِيْلِ [صفة صلاة النبى ص/89]
”یہ روایت مرسل ہے، جو قابل حجت نہیں۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اسے ”مراسیل“ میں یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے۔ “
لیکن یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی ”سالم“ محدثین کے نزدیک متروک ہے۔
علامہ ابن الترکمانی حنفی نے اس روایت کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ [ الجوهر النقي على السنن الكبري للبيهقي 2/ 223]
اس کے متعلق حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے، اس طرح کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو۔ “ [بيهقي فى السنن الكبريٰ 222/2، 223]
اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے :
اِنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ نِسَاءَهُ يَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاةِ [مسائل أحمد لابنه عبدالله ص/71]
”وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھیں“۔
لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری راوی ضعیف ہے۔ [تقريب التهذيب 182]
پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کر نے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقے کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد مروی ہیں، چند ایک یہاں نقل کئے جاتے ہیں :
➊ لَايَنْبَسِطْ اَحَدُكُمْ ذِرَعَيْهِ اِنْبِسَاطَ الْكَلْبِ [بخاري، كتاب الأذان : باب لايفترش زراعيه فى السجود 822]
”تم میں سے کوئی بھی حالتِ سجدہ میں اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔ “
➋ اِعْتَدِلُوْا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَفْتَرِشُ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ [أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب صفة السجود 897]
”سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔ “
غرض نماز کے اندر ایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح کے ہوں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑی کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرح افتراش یا کتے کی طرح اقعاء یا کوے کی طرح ٹھونگے مارنا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دم کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع ہیں۔ “ [زاد المعاد1/ 116]
پس ثابت ہوا کہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے :
إِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا [بخاري، كتاب الأذان : باب سنة الجلوس فى التشهد 828]
“ جب آپ سجدہ کرتے تو اہنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ اپنے پہلوؤں سے ہی ملاتے تھے۔ “
قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیت نماز کا فرق مروی نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے جملہ امہات المؤمنین، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بسند صحیح ام درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے :
انهاكانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة [ التاريخ الصغير للبخاري 90]
”وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں۔ “
چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے :
“ اس طرح نماز پڑھو، جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ “ [ بخاري : 6008]
اس حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
پانچویں یہ کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحاب کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور صلحائے امت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعوٰی کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کیا ہے۔ بلکہ امام ابوحنیفہ کے استاد امام ابراہیم نخعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے : تَفْعَلُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَفْعَلُ الرَّجُلُ [ابن أبى شيبة 2/75/1]
”نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے۔ “
جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کے لیے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا، قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور سجدے میں زمین کے ساتھ چپک جانا موجب ستر بیان کیا ہے وہ دراصل قیاس فاسد کی بنا پر ہے، کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن و سنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر کے ازخود دین میں اضافہ کرے ؟ البتہ نماز کی کیفیت و ہئیت کے علاوہ چند چیزیں مرد و عورت کی نماز میں مختلف ہیں :
➊ عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سر پر اوڑھنی لیں اور اپنے پاؤں بھی ڈھانپیں۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث نبوی ہے :
لَا يَقْبَلُ اللهُ صَلَاةَ الْحَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ [ابن ماجه، كتاب الطهارة : باب إذاحاضت الجارة لم تصل إلابخمار 655، أبوداؤد 641، أحمد 150/6]
” اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔ “
لیکن مردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے :
مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ [ بخاري، كتاب اللباس : باب ما أسفل من الكعبين فهو فى النار 5787]
”تہ بند کاجو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ آگ میں ہے۔ “
➋ عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے، مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو۔
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے مصنف میں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے سیدنا عطا رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا اَنَّهَا كَانَتْ تَؤُمُّ النِّسَاءَ فَتَقُوْمُ مَعَهُنَّ فِي الصَّفِّ [دارقطني 404/1]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔“
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں آتا ہے :
انها امت النساء فقامت و سطهن مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : [عون المعبود2/ 212]
” انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔ “
➌ امام جب نماز میں بھول جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں آتا ہے :
التَّسْبِيْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيْقُ لِلنِّسَاءِ [بخاري، كتاب العمل فى الصلاة : بَابُ التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ 1203]
”مردوں کے لیے سبحان اللہ اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے۔ “
➍ مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالت حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی جیسا کہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
➎ اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوتی ہے اور مردوں کی پہلی صف ان کی آخری صف سے بہتر ہوتی ہے۔ [مسلم، كتاب الصلاة : باب تسوية الصفوف وإقامتها وفضل الأول فالأول 440]
یہ تمام مسائل اپنی جگہ درست ہیں مگر قرآن و سنت سے ثابت شدہ فرق کو غیر ثابت شدہ کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ تفریقات علمائے احناف کی خود ساختہ ہیں جن کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک تبصرہ