مردوں کے لیے ریشم پہننے کی ممانعت اور اس کے شرعی استثنات
تحریر: عمران ایوب لاہوری

مرد خالص ریشم مت پہنے
➊ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تلبسوا الـحـريـر فإنه من لبسه فى الدنيا لم يلبسه فى الآخرة
”ریشم مت پہنو کیونکہ جس نے اسے دنیا میں پہنا وہ آخرت میں اسے نہیں پہنے گا ۔“
[بخاري: 5734 ، كتاب اللباس: باب لبس الحرير و افتراشه للرجال وقدر ما يجوز منه ، مسلم: 2069 ، احمد: 20/1 ، نسائي: 200/8]
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک ریشمی لباس لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! اسے آپ خرید لیجیے اور عید اور وفود کے لیے خوبصورتی حاصل کیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنمـا هـذه لباس من لا خلاق له فى الآخرة
”یہ تو صرف اس کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔“
[بخاري: 5835 ، كتاب اللباس: باب لبس الحرير وافتراشه ، مسلم: 2068]
➌ حضرت علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
إن نبي الله أخذ حريرا فجعله فى يمينه وأخذ ذهبا فجعله فى شـمـالـه ثـم قـال: إن هذين حرام على ذكور أمتي
”بلاشبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا پکڑ کر کہا یقیناََ یہ دونوں اشیا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3422 ، كتاب اللباس: باب فى الحرير للنساء ، ابو داود: 4057 ، نسائي: 5145 ، ابن ماجة: 3595 ، ابن حبان: 1465 – الموارد ، غاية المرام: 77]
❀ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ حدیث
لا تلبسوا الحرير
”ریشم مت پہنو“
کے عموم کی وجہ سے عورتوں کے لیے بھی ریشم حرام قرار دیتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ انہیں عورتوں کی تخصیص والی حدیث پہنچی نہ ہو ۔
[نيل الأوطار: 557/1]
❀ چھوٹے بچے چونکہ مکلّف نہیں ہوتے اس لیے اگر وہ ریشم پہن لیں تو گنہگار نہیں ہوں گے البتہ انہیں پہنانے والوں کو گناہ ہو گا اور امام شوکانیؒ بچوں کے لیے مطلق طور پر ریشم کے جواز کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوذى: 382/5 ، نيل الأوطار: 559/1]
❀ ایسا ریشم جو کسی دوسرے کپڑے کے ساتھ ملا ہوا ہو اسے پہننے میں اگرچہ اختلاف تو ہے لیکن راجح حرمت ہی ہے (جبکہ وہ ریشم چار انگلیوں سے زیادہ ہو) ۔
[تحفة الأحوذى: 384/5 ، نيل الأوطار: 563/1 ، الروضة الندية: 456/2]
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوذي: 384/5]
(نوویؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[شرح مسلم: 299/7]
جب چار انگلیوں سے زائد ہو مگر بطور علاج پہن سکتا ہے
➊ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن لبس الحرير إلا هكذا وصف لنا النبى صلى الله عليه وسلم إصبعيه ورفع زهير الوسطى والسبابة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا تھا سوائے اتنے کے اور اس کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کے اشارے سے کی تھی ۔ زہیر (راوی حدیث ) نے درمیانی اور شہادت کی انگلیاں اٹھا کر بتلایا ۔“
[بخاري: 5829 ، كتاب اللباس: باب لبس الحرير و افتراشه ، مسلم: 2069 ، ابو داود: 4042 ، ترمذي: 1721 ، نسائي: 202/8 ، ابن ماجة: 3593]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
نهي عن لبس الحرير إلا موضع إصبعين أو ثلاثة أو أربعة
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ، تین یا چار انگلیوں سے زیادہ ریشم پہنے سے منع فرمایا ہے ۔“
[مسلم: 2069 ، كتاب اللباس والزينة: باب تحريم لبس الحرير وغير ذلك للرجال]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
رخص النبى صلى الله عليه وسلم للزبير و عبد الرحمن فى لبس الحرير لمحكة بهما
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ کو خارش کی وجہ سے ریشم پہننے کی اجازت دی ۔“
[بخاري: 5839 ، كتاب اللباس: باب ما يرخص للرجال من الحرير للحكة ، مسلم: 2076 ، ابو داود: 4056 ، ترمذي: 1722 ، ابن ماجة: 3592]
اس مسئلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے:
(شافعیؒ ، ابو یوسفؒ ، قرطبیؒ) کسی شدید ضرورت کی وجہ سے ریشم پہنا جائز ہے ۔
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) چاہے کتنی ہی ضرورت ہو ریشم پہننا ہر صورت میں جائز نہیں ۔
(راجح) گذشتہ حدیث میں مذکور دونوں صحابیوں کی مثل کسی عذر میں ریشم پہنا جائز ہے ۔ جمہور علما کا یہی موقف ہے ۔
[نيل الأوطار: 565/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1