مرتد کی سزا اور اسلامی نقطہ نظر

مرتد کی سزا اور اس پر اعتراضات

اسلامی سزاؤں میں سب سے زیادہ اعتراض مرتد کی سزا پر کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے جملے عام دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے:

  • کیا اللہ میں اتنا صبر نہیں کہ وہ اپنے دین کے مرتد کو برداشت کر لے؟
  • ایک مرتد کو قتل کروانے سے اللہ کو کیا حاصل ہوگا؟
  • اگر اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے تو ایسے خونی دین کو کون قبول کرے گا؟
  • اگر دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو سکتے ہیں، تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کر سکتا؟
  • اگر یہودی اور عیسائی کے مسلمان ہونے پر قتل کی سزا لاگو نہیں ہوتی تو مسلمان کے یہودیت یا عیسائیت قبول کرنے پر کیوں واجب القتل قرار دیا جاتا ہے؟

مرتد کی سزا اور اس کی حیثیت

سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مرتد کون ہوتا ہے اور اس پر سزا کب لاگو ہوتی ہے؟ اسلام میں ارتداد کا مفہوم اور اس کی سزا کی تفصیل درج ذیل ہے:

مرتد خاتون

اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تو اسے قید کیا جائے گا۔ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک، ورنہ اسے تاحیات قید رکھا جائے گا یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے یا مر جائے۔

بالغ مرد

اگر کوئی عاقل اور بالغ مرد اسلام سے مرتد ہو جائے تو اسے تین دن تک مہلت دی جائے گی۔ اس دوران اس کے شبہات دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر وہ اسلام واپس قبول کر لے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔

نابالغ بچہ

اگر کوئی نابالغ بچہ مرتد ہو جائے اور وہ دین کو سمجھنے کی عمر کو پہنچ چکا ہو تو اس کا حکم بھی بالغ مرد کا ہوگا۔ اگر وہ سمجھنے کی عمر کو نہ پہنچا ہو تو اس پر کوئی سزا لاگو نہیں ہوگی۔

مجنون یا پاگل

اگر کوئی شخص مجنون یا پاگل ہو اور ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس پر ارتداد کی سزا لاگو نہیں ہوگی۔

مرتد کی سزا کا نفاذ

یہ سزا کوئی فرد یا گروہ اپنے طور پر لاگو نہیں کر سکتا بلکہ یہ اسلامی حکومت کا اختیار ہے۔ عام مسلمانوں کو حکم ہے کہ ایسے شخص سے تعلقات ختم کر لیں اور اس سے دوستی نہ رکھیں۔

کیا اسلام محض ایک مذہب ہے؟

جدید تصور کے مطابق مذہب کو صرف ایک رائے کی حیثیت دی جاتی ہے، اور وہ بھی ایسی رائے جو زندگی کے اہم امور پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ ایسی رائے میں انسان کو آزاد ہونا چاہئے کہ وہ اپنی مرضی سے اسے اختیار کرے یا چھوڑ دے۔

لیکن اسلام کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے جو نہ صرف مابعد الطبیعات سے بحث کرتا ہے بلکہ دنیاوی امور اور ریاستی نظام کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں مرتد کی سزا ایک فرد کے نظریاتی انحراف کی سزا نہیں، بلکہ ریاستی اور معاشرتی نظم کی حفاظت کے لیے ہے۔

بنیادی غلط فہمی

بعض لوگ مرتد کی سزا کو صرف ایک رائے کی تبدیلی کی سزا سمجھتے ہیں، جبکہ اسلام میں ارتداد ایک سنگین جرم ہے کیونکہ اس کا تعلق ریاستی نظام اور معاشرتی نظم و نسق سے ہے۔

ریاست کا قانونی حق

اسلامی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قوانین اور نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے افعال کو جرم قرار دے جو ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈالنے والے ہوں۔ یہی اصول دنیا کی تمام ریاستوں میں بھی موجود ہیں، جہاں بغاوت اور غداری کی سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

برطانوی قانون کی مثال

برطانوی قانون کے مطابق:

  • کوئی شخص جو برطانوی شہری ہے، اسے برطانوی ریاست کے اندر رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت یا ریاست کی وفاداری کا حلف اٹھانے کی اجازت نہیں۔ اگر ایسا شخص جنگ کے دوران کسی دشمن قوم کی وفاداری اختیار کرے تو اسے غداری کے جرم میں سزا دی جا سکتی ہے اور اس کی سزا موت ہو سکتی ہے۔

امریکہ کی مثال

امریکی قانون میں بھی اسی طرح کا اصول پایا جاتا ہے کہ کوئی شہری امریکہ کے اندر رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت یا ریاست کی وفاداری اختیار نہیں کر سکتا۔ غداری کے جرم میں امریکہ میں بھی سخت سزائیں موجود ہیں۔

ریاست کا فطری حق

ہر ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وجود اور نظام کی حفاظت کے لیے ایسے افراد کو سزا دے جو اس کے اصولوں اور قوانین سے انحراف کریں۔ اسلامی ریاست بھی اسی حق کے تحت مرتد کو سزا دینے کی مجاز ہے تاکہ معاشرتی نظم میں خلل پیدا نہ ہو۔

مرتد کی اصل حیثیت

اسلام میں مرتد کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنی ریاستی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے انحراف کرتا ہے۔ اس کا ارتداد ثابت کرتا ہے کہ وہ اس ریاستی اور معاشرتی نظم کو نہیں مانتا جس کی بنیاد پر پوری سوسائٹی قائم ہے۔ ایسی صورت میں اسے یا تو ریاست سے باہر چلے جانا چاہئے یا پھر اسے ریاست کے اندر زندہ رہنے کی اجازت نہ دی جائے۔

موازنہ برطانوی اور اسلامی قانون کا

برطانوی قانون: برطانوی قانون شاہی خاندان اور برطانوی ریاست کو حاکمیت کی بنیاد سمجھتا ہے اور ان کی مخالفت کرنے پر غداری کے جرم میں سخت سزائیں دیتا ہے۔

اسلامی قانون: اسلامی قانون خدا اور اس کے رسول کی وفاداری کو بنیاد بناتا ہے، اور اسی بنیاد پر ریاستی اور معاشرتی قوانین کا نفاذ کرتا ہے۔

خلاصہ

اسلامی قانون میں مرتد کی سزا ایک رائے کی تبدیلی کی سزا نہیں بلکہ ایک ریاستی جرم کی سزا ہے۔ جس طرح دنیا کی دیگر ریاستیں اپنے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دیتی ہیں، اسلامی ریاست بھی اپنے نظم و نسق کی حفاظت کے لیے مرتد کو سزا دینے کا حق رکھتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے