وروى مسلم من حديث محمد بن الحنفية عن على رضى الله عنه (أنه) قال: استحييت أن أسأل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عن المذي من أجل فاطمة، فأمرت المقداد فسأله، فقال: ((منه الوضوء))
مسلم نے محمد بن حنفیہ سے روایت کیا اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہتے ہیں کہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کے بارے میں پوچھنے سے شرمایا میں نے مقداد کو حکم دیا کہ وہ آپ سے پوچھے تو آپ نے ارشاد فرمایا: ”اس سے وضوء ہے ۔“
تحقیق و تخریج: بخاری: 178٬132 مسلم: 303
وعنده فى رواية عن ابن عباس، عن على فيها: ((توضأ وانضح فرجك))
مسلم کے نزدیک حضرت عبد اللہ بن عباس کے حوالے سے اس مسئلہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا: ”وضو کر اور اپنی شرم گاہ پر پانی کے چھینٹے مارے لیے ۔“
تحقیق و تخریج : مسلم: 303 ، سلیمان بن یسار کے واسطے سے ۔
فوائد:
➊ مذی آنے سے وضو کرنا ضروری ہے ۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وضو کے بعد پانی کے چھینٹے شلوار چادر وغیرہ پر مارنے چاہئیں ۔ کیونکہ بعض دفعہ بول کے قطرے یا گری کی وجہ سے لیسدار پانی خارج ہوتا ہے یا مذی کے قطرے لگ جاتے ہیں ۔
➋ مذی کا آجانا بری بات نہیں یہ لیس دار پانی ہوتا ہے جو منی سے قبل خارج ہوتا ہے جو کہ شہوت کی علامت ہے اور منی سے پتلا ہوتا ہے ۔
➌ دین میں کوئی شرم نہیں ہے ۔ ہر بات پوچھی جاسکتی ہے ۔ اگر ایسا مقام آجائے جہاں مسئلہ دریافت کرنا اپنے لیے باعث شرم ہو تو دوسرے کو کہہ کر مسئلہ کا حل دریافت کروایا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے شرم محسوس کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کے بارے سوال کریں ۔ حیا نے اجازت نہ دی کہ اپنی ہی بیوی کے باپ سے سوال کریں ۔
مسلم نے محمد بن حنفیہ سے روایت کیا اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہتے ہیں کہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کے بارے میں پوچھنے سے شرمایا میں نے مقداد کو حکم دیا کہ وہ آپ سے پوچھے تو آپ نے ارشاد فرمایا: ”اس سے وضوء ہے ۔“
تحقیق و تخریج: بخاری: 178٬132 مسلم: 303
وعنده فى رواية عن ابن عباس، عن على فيها: ((توضأ وانضح فرجك))
مسلم کے نزدیک حضرت عبد اللہ بن عباس کے حوالے سے اس مسئلہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا: ”وضو کر اور اپنی شرم گاہ پر پانی کے چھینٹے مارے لیے ۔“
تحقیق و تخریج : مسلم: 303 ، سلیمان بن یسار کے واسطے سے ۔
فوائد:
➊ مذی آنے سے وضو کرنا ضروری ہے ۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وضو کے بعد پانی کے چھینٹے شلوار چادر وغیرہ پر مارنے چاہئیں ۔ کیونکہ بعض دفعہ بول کے قطرے یا گری کی وجہ سے لیسدار پانی خارج ہوتا ہے یا مذی کے قطرے لگ جاتے ہیں ۔
➋ مذی کا آجانا بری بات نہیں یہ لیس دار پانی ہوتا ہے جو منی سے قبل خارج ہوتا ہے جو کہ شہوت کی علامت ہے اور منی سے پتلا ہوتا ہے ۔
➌ دین میں کوئی شرم نہیں ہے ۔ ہر بات پوچھی جاسکتی ہے ۔ اگر ایسا مقام آجائے جہاں مسئلہ دریافت کرنا اپنے لیے باعث شرم ہو تو دوسرے کو کہہ کر مسئلہ کا حل دریافت کروایا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے شرم محسوس کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کے بارے سوال کریں ۔ حیا نے اجازت نہ دی کہ اپنی ہی بیوی کے باپ سے سوال کریں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]