مذہب اور سائنس کے اعتبار کا اصولی فرق

یہ مضمون ان اعتراضات کا تجزیہ کرنے کے لیے ہے

جو مذہب پر کیے جاتے ہیں، خصوصاً ان دعووں کے حوالے سے جو "اعتبار” (faith) کے حوالے سے مذہب اور سائنس کے درمیان فرق کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعتراض کرنے والے اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس پر یقین زیادہ عقلی ہے جبکہ مذہب پر یقین غیر عقلی۔ مضمون کا مقصد ان استدلالی غلطیوں کی وضاحت کرنا ہے۔

اہلِ مذہب پر اعتراض: نبی پر غیر عقلی اعتبار

ملحدین اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اہلِ مذہب نبی کی سچائی پر اعتبار کرتے ہوئے جو کچھ بھی نبی نے کہا، اسے مان لیتے ہیں، اور یہ غیر عقلی رویہ ہے۔ اس پر اگر ان سے کہا جائے کہ آپ اپنے والد کو والد مانتے ہیں تو یہ کس بنیاد پر ہے؟ جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہم ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ دلیل بھی کمزور ہے، کیونکہ:

➊ ڈی این اے ٹیسٹ پر مکمل انحصار:

ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے خون کے نمونے کو درست آلات اور طبی ماہرین کی نگرانی میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ لیکن ان آلات کی درستگی اور ماہرین کی دیانت داری پر مکمل اعتبار کرنا پڑتا ہے۔
اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خون کے نمونے پر حقیقی ٹیسٹ ہوا؟ آپ کے سامنے یہ عمل نہیں ہوتا، صرف رپورٹ آپ کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔

➋ رپورٹ کی صداقت:

یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور شخص کی رپورٹ آپ کو دے دی گئی ہو، یا رپورٹ جعلی ہو۔

➌ میڈیکل سائنس کا ظنی علم:

جینیٹکس اور دیگر سائنسی نظریات بھی ظنی ہیں۔ ہر وقت نئے نظریات سامنے آتے ہیں، اور یہ کہنا کہ ایک نظریہ حتمی طور پر درست ہے، بذات خود ایک "اعتبار” ہے۔

➍ آباؤ اجداد کا مسئلہ:

اگر مان بھی لیا جائے کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے باپ کا تعین ممکن ہے، تو دادا یا نانا کی نسبت کا کیا کریں گے؟ اس سلسلے میں بھی "اعتبار” ہی کرنا پڑے گا۔

نتیجہ:

ملحدین اپنی نسب کو ثابت کرنے کے لیے بھی سائنسی عمل اور ماہرین پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس لیے اہلِ مذہب پر یہ اعتراض کہ وہ نبی پر اعتبار کرتے ہیں، بے بنیاد ہے۔

روزمرہ کی زندگی میں اعتبار کی بنیاد

انسان کی زندگی کا بڑا حصہ مختلف لوگوں اور اداروں پر "اعتبار” کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ یہ کہنا کہ جدید انسان اپنی زندگی کے ہر فیصلے میں سائنسی شواہد کو دیکھتا ہے، حقیقت سے بعید ہے۔

عام مثالیں:

  • دوائی کا استعمال:
    میڈیکل اسٹور سے دوائی خریدی، ایکسپائری ڈیٹ دیکھی اور بغیر لیبارٹری ٹیسٹ کے کھا لی۔ کیوں؟ کمپنی اور دکاندار پر "اعتبار” کیا۔
  • کھانے کا آرڈر:
    ریسٹورنٹ میں کھانے کا آرڈر دیا اور بغیر کسی ٹیسٹ کے کھا لیا۔ کیوں؟ ریسٹورنٹ پر "اعتبار” کیا۔
  • پیکٹڈ فوڈ کا استعمال:
    سپر اسٹور سے کھانے کی چیز خریدی اور بغیر لیبارٹری ٹیسٹ استعمال کی۔ کیوں؟ کمپنی پر "اعتبار” کیا۔
  • ٹرانسپورٹ کا استعمال:
    بس پر سوار ہوئے بغیر یہ تصدیق کیے کہ ڈرائیور کا لائسنس اصلی ہے یا نقلی۔ کیوں؟ ادارے پر "اعتبار” کیا۔

نتیجہ:

روزمرہ کی 95 فیصد زندگی میں انسان دوسروں پر اعتبار کرتا ہے، چاہے وہ کمپنیاں ہوں، ادارے ہوں یا افراد۔

سائنسی علم پر اعتبار

کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنسی علوم کے دعوے ہر شخص کے لیے جانچنے کے قابل ہیں، اس لیے ان پر اعتبار زیادہ عقلی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سائنسی علوم کو جانچنا سب کے لیے ممکن نہیں ہوتا، اور عوام الناس کو سائنس دانوں پر ہی "اعتبار” کرنا پڑتا ہے۔

اہم نکات:

  • سائنس دانوں کے مخصوص دائرے:
    سائنسی تحقیق اور نظریات ایک محدود دائرے میں ہوتی ہیں، اور ان کو سمجھنا حتیٰ کہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔
    ماہرین کے درمیان مباحثے عوام تک پہنچنے سے پہلے کئی سطحوں سے گزر کر سادہ زبان میں بیان کیے جاتے ہیں۔
  • عوام کا اعتبار:
    99.99 فیصد لوگ سائنس کے بنیادی اصولوں کو نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی جانچ سکتے ہیں۔ ان کا پورا یقین سائنس دانوں کے تجربات اور دعووں پر "اعتبار” پر مبنی ہوتا ہے۔

سوال:

کیا یہ اعتبار اہلِ مذہب کے نبی پر کیے جانے والے اعتبار سے جوہری طور پر مختلف ہے؟

اعتراض: "سائنس کو ہر کوئی جانچ سکتا ہے”

جب یہ کہا جائے کہ سائنس دانوں کے دعووں پر بھی اعتبار کیا جاتا ہے، تو ملحدین جواب دیتے ہیں کہ سائنس کا علم ہر شخص کے لیے جانچنے کے قابل ہے، جبکہ وحی کا علم کسی کے لیے جانچنے کے قابل نہیں۔ اس دعوے میں کئی استدلالی خامیاں ہیں:

➊ ہر سائنس دان ہر علم کو نہیں جانچ سکتا:

سائنس دان اپنی مخصوص مہارت کے دائرے میں رہ کر تحقیق کرتے ہیں۔ دیگر شعبوں کے علوم ان کے لیے بھی اعتبار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آج تک کوئی ایسا انسان نہیں گزرا جس نے تمام سائنسی علوم کو جانچ کر ان کی سچائی کو ثابت کیا ہو۔

➋ جانچ کا غیر حقیقی دعویٰ:

یہ دعویٰ کہ "ہر سائنسی علم کو جانچنا ممکن ہے” بذات خود غیر ثابت شدہ مفروضہ ہے۔

➌ عملی پہلو:

حتیٰ کہ بڑے سے بڑے سائنس دان کے لیے بھی دوسرے سائنس دانوں پر اعتبار کیے بغیر علم حاصل کرنا ممکن نہیں۔

نتیجہ:

ملحدین کا یہ دعویٰ کہ "سائنس کا ہر دعویٰ جانچنے کے قابل ہے” بذات خود ایک غیر منطقی اور غیر سائنسی مفروضہ ہے۔

مذہبی اور سائنسی اعتبار میں فرق

ہر علم کو جانچنے کا معیار اس علم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔

  • ماضی کے واقعات کو جانچنے کا معیار خبر پر مبنی ہوتا ہے۔
  • نبی کی خبر کو جانچنے کا معیار اس کے کردار، سچائی اور اس کے دعوے کی عقلی معقولیت پر مبنی ہے۔
  • سائنس کے دعووں کو جانچنے کے لیے بھی "اعتبار” کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ آلات، ماہرین یا رپورٹس پر ہو۔

خلاصہ

یہ کہنا کہ سائنس پر اعتبار زیادہ عقلی ہے جبکہ مذہب پر اعتبار غیر عقلی، ایک کمزور دعویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں جگہ "اعتبار” بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سائنسی اعتبار ایک اشرافیہ کے محدود حلقے میں محدود ہوتا ہے، جبکہ مذہب کے دعوے لاکھوں افراد کی گواہی اور سچائی پر مبنی ہوتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے