مذہب اور سائنس: حقیقت یا تصادم کا فسانہ؟

مذہب اور عقل کے درمیان کشمکش

مذہب اور عقل کے درمیان کشمکش کی داستان تو ہمیشہ سے موجود ہے، لیکن پچھلی صدی میں عقل اور سائنسی ترقی کی وجہ سے یہ کہا جانے لگا کہ مذہب نے اپنی آخری شکست کھا لی ہے اور میدان سے نکل چکا ہے۔ جیسا کہ کیروؔ کے مقولے میں کہا گیا ہے:

"ہم (اہلِ سائنس) نے خدا کی عارضی خدمات کا شکریہ ادا کرکے اسے سرحد پر پہنچا دیا ہے۔”
(دیباچہ مترجم ’’معمۂ کائنات‘‘:۱۲)

سائنس کی حیرت انگیز ایجادات کے زیرِ اثر یہ آوازیں یورپ کے مرعوب حلقوں میں اور زیادہ گونجنے لگیں۔

سائنس اور جنگ کا اثر

جب جنگ عظیم کا آغاز ہوا، تو جرمنی کی حیرت انگیز ایجادات اور جنگی اختراعات نے ایسی شہرت حاصل کی کہ لوگوں کو ان میں طلسماتی عناصر دکھائی دینے لگے۔ یہاں تک کہ ایک تعلیم یافتہ شخص نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ:

"جرمنی کی فوج کے تمام سپاہی لوہے اور کاٹھ کی پتلیاں ہوتے ہیں۔”

عوامی ذہنیت اس حد تک متاثر ہو چکی تھی کہ جرمنی کے متعلق کسی بھی عجیب و غریب بات پر بغیر سوچے سمجھے یقین کر لیا جاتا تھا۔

ہندوستان میں سائنس کا اثر

ہندوستان میں انگریزی حکومت کے ساتھ ساتھ یورپ کی سائنسی ایجادات بھی آئیں، جیسے ریل، تار، اور بجلی۔ یہ ایجادات لوگوں کے لیے کافی حیران کن تھیں۔ مزید یہ کہ سائنس نے زمین کا وزن معلوم کیا، روشنی کی رفتار بتائی، اور یہاں تک کہ مریخ پر پہاڑ، دریا اور آبادی کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔ جب اسکولوں اور کالجوں میں جدید تعلیم حاصل کرنے والے طلباء نے یہ سنا کہ "سائنس نے خدا کو سرحد پار کر دیا”، تو وہ سمجھنے لگے کہ جب سائنس، جو اتنی حیرت انگیز دریافتیں کر رہی ہے، نے خدا اور مذہب کو رد کر دیا ہے، تو پھر اس میں کوئی صداقت نہیں۔

غلط فہمیاں اور ان کے اسباب

اس فکر کے پھیلاؤ کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے:

فلاسفہ اور سائنسدانوں کے بیانات

بعض مقبول و مستند فلسفیوں اور سائنسدانوں کے بیانات سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مذہب اور سائنس میں مخالفت لازمی ہے، جس کی وجہ سے عوام اور خواص دونوں ہی اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔

سائنس اور مذہب کے درمیان عداوت کا مغالطہ

یورپ میں قرونِ وسطیٰ کے دوران محکمۂ احتساب (انکوینریشن) نے متعدد سائنسدانوں کو ان کے سائنسی انکشافات کی وجہ سے ستایا، جیسے کوپرنیکسؔ اور گلیلیوؔ۔ ان سائنسدانوں پر مذہبی اداروں کی جانب سے ظلم ہوا، جس کی وجہ سے لوگوں نے علم اور مذہب کو حریف سمجھنا شروع کر دیا۔ ڈریپرؔ نے تو "معرکۂ مذہب و سائنس” کے نام سے ایک کتاب تک لکھ ڈالی۔

مذہب اور سائنس کے اصولی اختلافات پر غور نہ کرنا

بعض لوگوں نے اس پر غور ہی نہ کیا کہ آیا واقعی مذہب اور عقل میں اصولی طور پر کوئی ٹکراؤ ہے یا نہیں۔ انہوں نے سائنس اور فلسفہ کے ہر دعوے کو درست مان لیا اور مذہب کی مخالفت کو اپنا فرض سمجھ لیا۔

مذہب اور سائنس کے دائرہ کار کا فرق

مذہب اور سائنس کے درمیان بے تعلقی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں کے دائرہ کار کی وضاحت کی جائے:

سائنس کا دائرہ کار

سائنس کی تحقیق اور بحث کا تعلق فطرت کے مشاہدات اور تجربات سے ہے۔ اس کا مقصد کائنات کے واقعات کو سمجھنا اور بیان کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، نیوٹنؔ کا قانونِ کشش ایک عظیم سائنسی انکشاف ہے، لیکن اس قانون کا ماخذ یا اس کی تخلیق کا سوال سائنس کی حدود سے باہر ہے۔

مذہب کا دائرہ کار

مذہب کا دائرہ کار ان سوالات تک پھیلا ہوا ہے جو سائنس کے تجربہ و مشاہدہ سے ماورا ہیں، جیسے خدا، روح، حشر و نشر وغیرہ۔ مذہب ان سوالات کا جواب دیتا ہے جو سائنس کا موضوع نہیں ہیں۔ سائنس کی تحقیق "ثانوی اسباب” کی وضاحت کرتی ہے، جبکہ "عللِ اولیٰ” یعنی بنیادی اسباب کی تلاش مذہب کا موضوع ہے۔

سائنس اور مذہب کے تعلق پر چند اہم نکات

◈ سائنس کا طریقہ کار تجرباتی اور مشاہداتی ہے، جبکہ مذہب کا تعلق روحانی اور ماورائی حقائق سے ہے۔
◈ سائنس کسی چیز کی حقیقت اور اس کے اندرونی کام کے بارے میں محدود علم فراہم کرتی ہے، جیسے مادے کی ترکیب یا اجرامِ فلکی کی حرکت۔ لیکن خدا یا روح جیسے تصورات پر بحث کرنا اس کا دائرہ نہیں۔
◈ بعض سائنسدان، جیسے رچرڈ ڈاکنز یا سٹیفن ہاکنگ، سائنس میں خدا کے تصور کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کا تصور سائنس کی نفی ہے۔ یہ صرف سائنسی طریقہ کار کی خاصیت ہے کہ وہ تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔
◈ سائنس کی تحقیق سے جو نتائج سامنے آتے ہیں، ان پر جو احکامات یا فیصلے صادر کیے جاتے ہیں وہ خود سائنس کے نہیں ہوتے، بلکہ انسان کی ذاتی رائے اور عقائد کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

نتیجہ

سائنس اور مذہب کے درمیان مخالفت کا خیال جتنا وسیع ہے، اتنا ہی بے بنیاد بھی ہے۔ ان دونوں کے دائرہ کار اور طریقہ کار الگ الگ ہیں۔ سائنس مادی دنیا کے قوانین کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، جبکہ مذہب انسان کے روحانی سوالات کا جواب دیتا ہے۔ اس فرق کو سمجھنے سے ہم سائنس اور مذہب کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کر سکتے ہیں۔ آئندہ مضامین میں اس موضوع پر مزید وضاحت پیش کی جائے گی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!