مدینۃ العلم حدیث: تحقیق اور سندوں کی حقیقت
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور روایت کی حقیقت

سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے داماد، چوتھے خلیفہ اور شیر خدا ہیں۔ ان کی بے شمار فضیلتیں زبانِ نبوت سے منسوب ہیں، اور جو باتیں رسول اللہ ﷺ سے صحیح احادیث میں ہم تک پہنچی ہیں، وہی ان کی حقیقی فضیلتیں ہیں۔ جھوٹی اور کمزور روایات پر مبنی اقوال کو فضائل کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں ایک ایسی ہی مشہور روایت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:

’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
ترجمہ: "میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں۔”

عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے، مگر حقیقت میں یہ روایت اصولِ محدثین کے مطابق درست نہیں ہے۔ اس کی استنادی حیثیت معلوم کرنے کے لیے اس حوالے سے موجود روایات پر تحقیق پیش کی جا رہی ہے:

روایت نمبر 1:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
ترجمہ: "میں حکمت کا گھر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں۔”
(سنن الترمذی: 3723، تہذیب الآثار للطبرانی، مسند علی، ص: 104)

تبصرہ:

یہ روایت "ضعیف” ہے، اس کے کئی اسباب ہیں:

  • محمد بن عمر بن عبداللہ رومی کو جمہور محدثین نے "ضعیف” قرار دیا ہے۔
  • امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں: "فِیہِ ضُعْفٌ”
    (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: 22/8)
  • امام ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں: "شیخ لین”
    (الجرح والتعدیل: 22/8)
  • امام ابن حبان فرماتے ہیں: "یہ حدیثیں گھڑتا ہے اور ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرتا ہے۔”
    (المجروحین: 94/2)

شریک بن عبداللہ کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ یہ "صَدُوقٌ یُّخْطِیُٔ کثیراً”
یعنی سچے تھے مگر بہت غلطیاں کرتے تھے۔ (تقریب التہذیب: 2787) ان کی روایات کو حافظے کی خرابی کے باعث بھی کمزور قرار دیا گیا ہے۔

اس میں تدلیس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر اس روایت کو علماء نے "منکر” اور "باطل” قرار دیا ہے۔ امام ابو حاتم رازی، امام ترمذی، امام ابن حبان اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے جھوٹی روایت کہا ہے۔

روایت نمبر 2:

اسی مضمون کی ایک اور روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
’أَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
امام آجری رحمہ اللہ نے اس میں یہ اضافہ نقل کیا: "جو اس گھر میں داخل ہونا چاہے، وہ دروازے سے آئے۔”
(جزء الألف دینار للقطیعی: 216، زوائد فضائل الصحابہ: 635/1، الشریعہ للآجری: 232/3)

یہ روایت بھی دیگر سندی خرابیوں کی وجہ سے کمزور اور ناقابلِ قبول ہے۔

تبصرہ:

یہ روایت جس کی سند کا حال بیان کیا جا رہا ہے، اس کی سند بھی پہلی روایت کی طرح کمزور اور غیر معتبر ہے۔

روایت نمبر 3:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ بَابَ الْمَدِینَۃِ‘
ترجمہ: "میں علم کا شہر ہوں، اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں، جو شخص علم حاصل کرنا چاہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔”
(مناقب عليّ لابن المغازلي: 129، تاریخ دمشق لابن عساکر: 378/42)

تبصرہ:

اس روایت کی سند کئی وجوہات کی بنا پر ناقابل اعتبار ہے:

  • شریک بن عبداللہ قاضی کی تدلیس ہے۔
  • سلمہ بن کہیل نے صنابحی سے براہ راست روایت نہیں کی۔
  • سوید بن سعید حدثانی، جنہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تدلیس کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ اس کی نابینائی کے باعث عمر کے آخری حصے میں حافظہ کمزور ہو چکا تھا، اس وجہ سے ان کی روایات قابل اعتماد نہیں مانی جاتیں۔
    (طبقات المدلسین: 120)

روایت نمبر 4:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْفِقْہِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
ترجمہ: "میں فقہ کا شہر ہوں، اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں۔”
(الشریعۃ في السنۃ للآجری: 232/3، حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم الأصبهانی: 64/1، الموضوعات لابن الجوزی: 349/1)

تبصرہ:

یہ سند جھوٹی ہے اور اس میں متعدد نقائص ہیں:

  • عبدالحمید بن بحر بصری راوی پر احادیث کے سرقے کا الزام ہے۔
  • امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبدالحمید کی روایات منکر ہیں اور وہ ثقہ راویوں کی احادیث کو چوری کر کے اپنی طرف سے بیان کرتا ہے۔
    (الکامل فی ضعفاء الرجال: 325/5)
  • امام ابن حبان رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ مالک، شریک اور کوفیوں سے ایسی روایات بیان کرتا ہے جو ان کی نہیں ہیں اور اس کی حدیث سے دلیل لینا جائز نہیں ہے۔
    (المجروحین: 142/2)
  • امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے بھی اسی قسم کی بات کہی ہے کہ یہ مقلوب اور منکر احادیث بیان کرتا ہے۔
  • شریک بن عبداللہ قاضی کی تدلیس بھی اس روایت میں شامل ہے۔ اس کے بارے میں علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شریک کی روایت ثابت بھی ہو تو اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس میں تدلیس، خطا اور اضطراب موجود ہیں۔
    (حاشیہ الفوائد المجموعۃ للشوکانی، ص: 352)

روایت نمبر 5:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْجَنَّۃِ، وَأَنْتَ بَابُہَا یَا عَلِيُّ، کَذِبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّہٗ یَدْخُلُہَا مِنْ غَیْرِ بَابِہَا‘
ترجمہ: "میں جنت کا شہر ہوں اور اے علی، آپ اس کا دروازہ ہیں۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دروازے کے علاوہ سے داخل ہوگا، وہ جھوٹ بولتا ہے۔”
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 378/42، اللآّلی المصنوعۃ للسیوطی: 335/1)

تبصرہ:

اس کی سند جھوٹی ہے، کیونکہ:

  • سعد بن طریف اسکانی راوی متروک ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے وضاع (جھوٹی احادیث گھڑنے والا) قرار دیا ہے۔ یہ رافضی عقائد کا حامل تھا۔
    (تقریب التہذیب: 2241)
  • اصبغ بن نباتہ تمیمی کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ متروک ہے اور اس پر بھی رافضی ہونے کا الزام ہے۔
    (تقریب التہذیب: 537)

روایت نمبر 6:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’شَجَرَۃٌ أَنَا أَصْلُہَا، وَعَلِيٌّ فَرْعُہَا، وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ مِنْ ثَمَرِہَا، وَالشِّیعَۃُ وَرَقُہَا، فَہَلْ یَخْرُجُ مِنَ الطَّیِّبِ إِلَّا الطَّیِّبُ؟ وَأَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَہَا؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘
ترجمہ: "میں درخت کا تنا ہوں، علی رضی اللہ عنہ اس کی شاخ ہیں، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اس کے پھل ہیں اور شیعہ اس کے پتے ہیں۔ پاکیزہ چیز سے صرف پاکیزہ چیز ہی پیدا ہوتی ہے۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں، لہذا جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ دروازے سے آئے۔”
(تلخیص المتشابہ للخطیب: 308/1، تاریخ دمشق لابن عساکر: 383/42)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے، کیونکہ:

  • یحییٰ بن بشار کندی اور اسماعیل بن ابراہیم ہمدانی دونوں مجہول ہیں، جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔
    (تلخیص المتشابہ: 308/1)
  • حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی یحییٰ بن بشار کندی کو غیر معروف اور جھوٹی روایات بیان کرنے والا قرار دیا ہے۔
    (میزان الاعتدال: 366/4)

روایت نمبر 7:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَأَنْتَ یَا عَلِيُّ بَابُہَا‘
ترجمہ: "میں حکمت کا شہر ہوں، اور اے علی رضی اللہ عنہ! آپ اس کا دروازہ ہیں۔”
(الأمالي لأبي جعفر الطوسي الرافضي: 490/1)

تبصرہ:

یہ انتہائی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ:

  • جابر بن یزید جعفی کذاب اور متروک راوی ہے۔
  • احمد بن حماد ہمدانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی مجہول ہے۔
    (میزان الاعتدال: 94/1)
  • عمرو بن شمر ضعیف اور متروک راوی ہے۔

روایت نمبر 8:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘
ترجمہ: "میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں، جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔”
(الموضوعات لابن الجوزي: 350/1)

تبصرہ:

یہ روایت بھی باطل ہے۔ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں کئی مجہول راوی ہیں۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 353/1)

روایت نمبر 9:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’یَا عَلِيُّ، أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَأَنْتَ الْبَابُ، کَذِبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّہٗ یَصِلُ إِلَی الْمَدِینَۃِ، إِلَّا مِنَ الْبَابِ‘
ترجمہ: "اے علی! میں علم کا شہر ہوں اور آپ اس کا دروازہ ہیں۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس دروازے کے بغیر شہر میں داخل ہو سکتا ہے، وہ جھوٹا ہے۔”
(مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي: 126)

تبصرہ:

یہ روایت بھی جھوٹی ہے، کیونکہ:

  • محمد بن عبداللہ بن عمر بن مسلم لاحقی کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔
  • محمد بن عبداللہ بن محمد ابو مفضل کوفی پر جھوٹ بولنے اور احادیث گھڑنے کا الزام ہے۔
    (تاریخ بغداد للخطیب: 466/5، لسان المیزان: 231/5، 232)

روایت نمبر 10:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘
ترجمہ: "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ دروازے سے آئے۔”
(اللالي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطی: 334/1)

تبصرہ:

یہ روایت سنداً جھوٹی ہے، کیونکہ:

  • داؤد بن سلیمان جرجانی غازی کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کذاب قرار دیا ہے، اور امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے اسے مجہول کہا ہے۔ مزید یہ کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ شخص من گھڑت روایات کا مجموعہ رکھتا تھا۔
    (میزان الاعتدال: 8/2، لسان المیزان: 417/2)
  • علی بن حسین بن بندار بن مثنیٰ استر اباذی پر محدثین نے جرح کی ہے، جیسا کہ امام ابن نجار رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، اور امام ابن طاہر نے اسے متہم کہا ہے۔
    (لسان المیزان: 217/4، میزان الاعتدال: 121/3)

روایت نمبر 11:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘
ترجمہ: "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ دروازے سے آئے۔”
(الموضوعات لابن الجوزی: 350/1)

تبصرہ:

یہ روایت باطل ہے، کیونکہ:

  • حسن بن محمد بن جریر کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔
  • عبیداللہ بن ابو رافع کے تعارف کے بغیر یہ روایت قابل قبول نہیں۔

روایت نمبر 12:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، وَلَا تُؤْتَی الْبُیُوتُ إِلاَّ مِنْ أَبْوَابِہَا‘
ترجمہ: "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، گھروں میں داخل ہونا دروازوں ہی سے ہوتا ہے۔”
(مناقب عليّ لابن المغازلي: 122)

تبصرہ:

یہ روایت بھی ثابت نہیں، کیونکہ:

  • علی بن عمر بن علی بن حسین کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مستور کہا ہے، یعنی ان کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
    (تقریب التہذیب: 4775)
  • حفص بن عمر صنعانی کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
    (تقریب التہذیب: 1420)
  • محمد بن مصفّی بن بہلول قرشی تدلیس التسویہ کا مرتکب ہے، یعنی یہ روایت کی سند میں راویوں کو چھپانے کا عمل کرتا تھا۔
    (المجروحین لابن حبان: 94/1)

روایت نمبر 13:

امام دارقطنی رحمہ اللہ کی کتاب [العلل: 247/3] میں ایک روایت ہے، جس کے راوی یحییٰ بن سلمہ بن کہیل کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ متروک اور شیعہ راوی ہے۔”
(تقریب التہذیب: 7561) حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے متروک قرار دیا ہے۔
(تلخیص المستدرک: 126/3، 246/2)

روایت نمبر 14:

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’ہٰذَا أَمِیرُ الْبَرَرَۃِ، وَقَاتِلُ الْفَجَرَۃِ، مُنْصُورٌ مَّنْ نَّصَرَہٗ، مَخْذُولٌ مَّنْ خَذَلَہٗ‘، مَدَّ بِہَا صَوْتَہٗ، ثُمَّ قَالَ : ’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْحِکَمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘
ترجمہ: "یہ نیکوں کے قائد اور برے لوگوں کے قاتل ہیں۔ جو ان کی مدد کرے گا، منصور ہوگا اور جو ان کو رسوا کرنے کی کوشش کرے گا، وہ ذلیل ہوگا۔ پھر فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، جو حکمت حاصل کرنا چاہتا ہو، وہ دروازے سے آئے۔”
(المجروحین لابن حبان: 152/1، الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 192/1، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 127/3، تاریخ بغداد للخطیب: 219/4)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی ہے، کیونکہ:

  • احمد بن عبداللہ بن یزید ہشیمی کذاب اور جھوٹی روایات گھڑنے والا تھا۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ احادیث گھڑتا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتا تھا۔”
    (الکامل في ضعفاء الرجال: 192/1)
  • امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ ثقہ راویوں سے جھوٹی اور منکر روایات بیان کرتا تھا۔”
    (المجروحین: 152/1)
  • امام دارقطنی رحمہ اللہ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے کذاب قرار دیا ہے۔
    (تلخیص المستدرک: 127/3)
  • سفیان ثوری کی تدلیس بھی اس روایت میں شامل ہے، جس کی وجہ سے اس روایت کو مزید ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

روایت نمبر 15:

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَبُو بَکْرٍ وَّعُمَرُ سَیِّدَا أَہْلِ الْجَنَّۃِ ۔۔۔۔ أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکَمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ بِالْمَدِینَۃِ؛ فَلْیَأْتِ بَابَہَا‘
ترجمہ: "ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما جنت کے سردار ہیں۔ میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، جو حکمت حاصل کرنا چاہتا ہو، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔”
(المؤتلف والمختلف للدارقطني: 625/2، تاریخ دمشق لابن عساکر: 382/42)

تبصرہ:

یہ بھی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ:

  • حبیب بن نعمان غیر معروف راوی ہے۔
    (تلخیص المتشابہ: 161/1)
  • حسین بن عبداللہ تمیمی مجہول راوی ہے۔
    (تلخیص المتشابہ: 161/1)

روایت نمبر 16:

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ سَیِّدُ الْعَرَبِ…عَلِيٌّ عَلَیْہِ السَّلَامُ خَیْرُ الْبَشَرِ، مَنْ أَبٰی فَقَدْ کَفَرَ‘
ترجمہ: "علی بن ابی طالب عرب کے سردار ہیں… علی تمام انسانوں سے بہتر ہیں، جو اس کا انکار کرتا ہے، وہ کافر ہے۔”
(المنقبۃ لابن شاذان: 94)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے، اس کے مختلف راویوں کی جانچ کی جاتی ہے:

  • عیسیٰ بن مہران ابو موسیٰ مستعطف:
    امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ شخص من گھڑت اور منکر روایات بیان کرتا تھا اور کٹر رافضی تھا۔
    (الکامل في ضعفاء الرجال: 260/5)
    امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ شخص صحابہ کرام پر طعن کرنے اور جھوٹی احادیث گھڑنے والا تھا۔
    (تاریخ بغداد: 168/11)
    حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے کذاب اور جھوٹا قرار دیا ہے۔
    (میزان الاعتدال: 324/3)
  • محمد بن عبداللہ بن عبیداللہ ابو فضل کوفی:
    یہ راوی بھی پرلے درجے کا جھوٹا، دجال اور احادیث گھڑنے والا تھا۔
    (تاریخ بغداد للخطیب: 467/5، لسان المیزان لابن حجر: 321/5)
  • خالد بن طہمان ابو علا خفاف:
    امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی اپنی موت سے دس سال پہلے حافظے کے اختلاط کا شکار ہو گیا تھا، جس کے بعد وہ تلقین قبول کرنے لگا تھا، یعنی اس سے جو روایت پیش کی جاتی، وہ اسے تسلیم کر لیتا تھا۔
    (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 19/3)
  • ابن شاذان:
    اس روایت کا مصنف ابن شاذان بھی سخت جھوٹا شخص تھا، جس پر آگے تفصیل سے بات کی جائے گی۔

روایت نمبر 17:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’یَا عَلِيُّ، أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَأَنْتَ بَابُہَا… فَمَثَلُکَ وَمَثَلُ الْأَئِمَّۃِ مِنْ وُّلْدِکَ بَعْدِي؛ مَثَلُ سَفِینَۃِ نُوحٍ‘
ترجمہ: "اے علی! میں حکمت کا شہر ہوں اور آپ اس کا دروازہ ہیں… آپ اور آپ کے بعد آنے والے اماموں کی مثال کشتیٔ نوح جیسی ہے، جو اس میں سوار ہو گیا، وہ نجات پا گیا۔”
(المنقبۃ لابن شاذان: 18)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے، اس کی اسناد میں کئی راوی ناقابل اعتماد ہیں:

  • سعد بن طریف اسکانی خفاف:
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ متروک راوی ہے، اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے جھوٹی احادیث گھڑنے والا اور رافضی قرار دیا ہے۔”
    (تقریب التہذیب: 2241)
  • ابن شاذان:
    حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن شاذان دجال اور جھوٹی احادیث کا بیان کرنے والا ہے، اور اس کی منقولہ روایات جھوٹی، باطل اور ناقابل اعتماد ہیں۔
    (میزان الاعتدال: 467/3)
    انہوں نے اس کی ایک اور روایت کے بارے میں فرمایا: "یہ جھوٹ ہے۔”
    (میزان الاعتدال: 467/3)

روایت نمبر 18:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘
ترجمہ: "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ دروازے سے آئے۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 412/3، الموضوعات لابن الجوزی: 352/1)

تبصرہ:

یہ بھی ایک من گھڑت روایت ہے، اس کی سند میں شامل راویوں کے بارے میں محدثین کا کلام درج ذیل ہے:

  • احمد بن حفص سعدی:
    امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس نے ایسی منکر روایات بیان کیں جن کی کوئی متابعت نہیں کی گئی۔”
    (الکامل في ضعفاء الرجال: 199/1)
    امام اسماعیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی عقل زائل ہو چکی تھی اور کبھی کبھی اس پر اشتباہ ہوتا تھا۔
    (معجم الإسماعیلي: 355/1)
    حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے "صاحب المناکیر” قرار دیا اور کہا کہ "یہ ضعیف ہے اور کسی کام کا نہیں۔”
    (میزان الاعتدال: 94/1)
  • سعید بن عقبہ کوفی:
    امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ مجہول اور غیر ثقہ ہے۔”
    (الکامل في ضعفاء الرجال: 413/3)

روایت نمبر 19:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
ترجمہ: "میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 177/5، الشریعۃ للآجری: 236/3)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے، کیونکہ:

  • عثمان بن عبداللہ کی سند میں مسئلہ ہے۔
  • امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت اعمش سے معضل ہے (یعنی سند میں راوی چھوٹ گئے ہیں)، اور اسے ضعیف راویوں نے ابو صلت ہروی سے چوری کر کے بیان کیا ہے۔”
    (الکامل في ضعفاء الرجال: 177/5)
  • عثمان بن خالد کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ مقلوب روایتیں بیان کرتا ہے اور ثقہ راویوں سے ایسی سندیں بیان کرتا ہے جو ان سے نہیں ہیں۔”
    (المجروحین: 102/2)
  • اعمش کی تدلیس کی نشاندہی بھی اس روایت میں کی گئی ہے، جو اس روایت کو مزید ضعیف بناتی ہے۔

روایت نمبر 20:

ایک اور سند کے ساتھ بیان کی گئی روایت:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
(الموضوعات لابن الجوزي: 325/1)

تبصرہ:

یہ روایت بھی من گھڑت ہے، کیونکہ:

  • حسن بن عثمان تستری کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیثیں گھڑتا تھا اور دوسرے لوگوں کی روایات کو چوری کرتا تھا۔”
    (الکامل في ضعفاء الرجال: 345/2)
  • عبد الرحمن اہوازی نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔

روایت نمبر 21:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
(تاریخ بغداد للخطیب: 348/4، الموضوعات لابن الجوزي: 351/1)

تبصرہ:

یہ روایت بھی باطل ہے، کیونکہ:

  • رجا بن سلمہ پر حدیث چوری کرنے کا الزام ہے۔
    (الموضوعات لابن الجوزي: 351/1)
  • ابو معاویہ محمد بن حازم ضریر اور اعمش دونوں مدلس ہیں، اور اس میں اعمش کی تدلیس بھی شامل ہے۔

روایت نمبر 22:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ایک اور روایت:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 67/5، المعجم الکبیر للطبراني: 65/11)

تبصرہ:

یہ روایت بھی جھوٹی ہے، کیونکہ:

  • ابو صلت عبدالسلام بن صالح کو ضعیف اور متروک راوی قرار دیا گیا ہے۔
  • اس میں اعمش کی تدلیس بھی موجود ہے۔

روایت نمبر 23:

ابن محرز کی متابعت سے بیان کی گئی ایک روایت:
(معرفۃ الرجال: 242/2، مناقب عليّ لابن المغازلي: 128)

تبصرہ:

یہ روایت بھی معلول ہے، کیونکہ:

  • ابن محرز کی توثیق نہیں ملتی۔
  • محمد بن طفیل بن مالک حنفی کو صرف امام ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے، لیکن یہ مجہول الحال راوی ہے۔

خلاصہ:

"مدینۃ الحکمۃ” سے متعلق یہ تمام روایات سنداً ضعیف، مجہول، اور جھوٹی ہیں۔ ان میں موجود راوی ضعیف، مدلس، یا کذاب ہیں، اور محدثین نے ان روایات کی سختی سے تردید کی ہے۔

روایت نمبر 24:

محمد بن جعفر فیدی نے اس روایت کی متابعت کی ہے
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 127/3)

تبصرہ:

حسین بن فہم کو امام حاکم نے ثقہ، مامون اور حافظ کہا ہے، لیکن امام دارقطنی رحمہ اللہ کے مطابق، "حسین بن فہم قوی نہیں ہے۔”
(سوالات الحاکم للدارقطني: 85) ابو حسین محمد بن احمد بن تمیم قنطری کی توثیق کا مسئلہ بھی اس سند میں موجود ہے۔

روایت نمبر 25:

امام ابو عبید قاسم بن سلام نے اس روایت کی متابعت کی ہے
(کتاب المجروحین لابن حبّان: 130/1)

تبصرہ:

یہ سند مختلف وجوہات کی بنا پر باطل ہے:

  • اسماعیل بن محمد بن یوسف الجبرینی ابو ہارون کے بارے میں امام ابن ابوحاتم فرماتے ہیں کہ اس کی احادیث سچے راویوں کی احادیث سے نہیں ملتیں۔
    (الجرح والتعدیل: 196/2)
  • امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ سندوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور احادیث چوری کرتا ہے۔
    (المجروحین: 130/1)
  • امام حاکم نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ من گھڑت احادیث بیان کرتا تھا۔
    (لسان المیزان: 433/1)

روایت نمبر 26:

عمر بن اسماعیل بن مجالد نے متابعت کی ہے
(الضعفاء الکبیر للعقیلی: 150/3)

تبصرہ:

عمر بن اسماعیل کے بارے میں امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف الحدیث ہے۔
(الجرح والتعدیل: 99/6) امام ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے اور بیان کیا ہے کہ اس نے جھوٹی روایت "انا مدینۃ العلم” بیان کی ہے۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلی: 150/3) حافظ ابن حجر نے بھی اسے متروک قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب: 4866)

روایت نمبر 27:

ابراہیم بن موسیٰ رازی نے متابعت کی ہے
(تہذیب الآثار [مسند علی] لأبي جعفر الطبري: 105)

تبصرہ:

امام طبری رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ وہ اس راوی کو نہیں جانتے اور اس سے کوئی اور روایت نہیں سنی۔ یہ اس روایت کو مزید ضعیف کرتا ہے۔

روایت نمبر 28:

احمد بن سلمہ ابو عمرو جرجانی نے متابعت کی ہے
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 189/1)

تبصرہ:

احمد بن سلمہ کے بارے میں امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں سے جھوٹی روایات بیان کرتا تھا اور احادیث کا سرقہ کرتا تھا۔
(الکامل في ضعفاء الرجال: 189/1) حافظ ذہبی نے بھی اسے کذاب قرار دیا ہے۔
(دیوان الضعفاء: 41)

روایت نمبر 29:

حسن بن راشد نے متابعت کی ہے
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 65/5)

تبصرہ:

اس سند کا راوی حسن بن علی عدوی کذاب ہے اور امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ اس نے ابو صلت ہروی سے روایت چوری کی ہے۔
(الکامل في ضعفاء الرجال: 341/2)

روایت نمبر 30:

موسیٰ بن محمد انصاری نے متابعت کی ہے
(میزان الاعتدال للذہبي: 444/3)

تبصرہ:

محفوظ بن بحر انطاکی کے بارے میں امام ابو عروبہ فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹی روایات بیان کرتا تھا۔
(الکامل في ضعفاء الرجال: 441/6) حافظ ذہبی نے اس روایت کو محفوظ بن بحر کی جھوٹی روایات میں شمار کیا ہے۔
(میزان الاعتدال: 444/3)

روایت نمبر 31:

رجل من اہل الشام (شام کے ایک مرد) نے اس روایت کی متابعت کی ہے
(تعلیقات الدارقطنی علی المجروحین لابن حبّان، ص: 179)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی ہے کیونکہ:

  • امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    "ابو صلت نے یہ روایت جھوٹا طور پر ابو معاویہ کی طرف منسوب کی، اور کئی ضعیف راویوں نے اس کو نقل کیا۔ ان میں عمر بن اسماعیل بن مجالد، محمد بن جعفر اور شام کا ایک کذاب شخص شامل ہیں۔ شامی کذاب نے اسے ہشام عن ابو معاویہ کی سند سے بیان کیا ہے۔”
    (تعلیقات الدارقطني علی المجروحین: 179)
  • امام دارقطنی نے اس کی مکمل سند ذکر نہیں کی لیکن رجل مبہم (شامی کذاب) کو جھوٹا قرار دیا ہے، اور اس کے باطل ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

روایت نمبر 32:

جعفر بن محمد بغدادی نے اس روایت کی متابعت کی ہے
(تاریخ بغداد للخطیب: 172/7، الموضوعات لابن الجوزي: 350/1)

تبصرہ:

یہ روایت بھی جھوٹی ہے کیونکہ:

  • حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جعفر بن محمد بغدادی مجہول راوی ہے اور یہ روایت من گھڑت ہے۔
    (میزان الاعتدال: 415/1)
  • ابو جعفر مطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس حدیث کو ابو معاویہ سے کسی ثقہ راوی نے بیان نہیں کیا، صرف ابو صلت ہروی نے بیان کیا ہے، اور اسے محدثین کرام نے جھوٹا قرار دیا ہے۔”
    (تاریخ بغداد للخطیب: 172/7)

روایت نمبر 33:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَأَبُو بَکْرٍ وَّعُمَرُ وَعُثْمَانُ سُوَرُہَا، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 321/45، اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي: 308)

تبصرہ:

یہ روایت بھی باطل ہے کیونکہ:

  • حسن بن تمیم بن تمام مجہول راوی ہے، اور اس کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔
  • دوسرے راوی ابو القاسم عمر بن محمد بن حسین کرخی کی توثیق درکار ہے۔
  • حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس روایت کی سند اور متن دونوں سخت منکر ہیں۔”
    (تاریخ دمشق: 321/45)

روایت نمبر 34:

نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب ہے:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَأَبُو بَکْرٍ أَسَاسُہَا، وَعُمَرُ حِیطَانُہَا، وَعُثْمَانُ سَقْفُہَا، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 20/9)

تبصرہ:

یہ سفید جھوٹ ہے، اور اس کو گھڑنے والا اسماعیل بن علی بن مثنی استراباذی ہے۔

ائمہ کرام کی آراء:

  • امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث بے اصل ہے۔”
    (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: 99/6)
  • امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں کئی اہل علم نے عیب لگائے ہیں۔
    (سوالات البرذعی: 753/2)
  • امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے "منکر” قرار دیا ہے۔
    (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: 22/8)
  • امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث غریب و منکر ہے۔”
    (سنن الترمذی: 3723)
  • امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔”
    (المجروحین: 94/2)
  • امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث مضطرب اور غیر ثابت ہے۔”
    (العلل: 247/3)
  • امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس مفہوم کی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔”
    (الضعفاء الکبیر: 150/3)
  • امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث منکر و من گھڑت ہے۔”
    (الکامل في ضعفاء الرجال: 192/1)
  • حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس مفہوم کی تمام روایات منکر ہیں۔”
    (تاریخ دمشق: 380/42)
  • حافظ ابن الجوزی نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔
    (الموضوعات: 533/1)
  • حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ جھوٹی حدیث ہے۔”
    (تہذیب الأسماء واللغات: 490/1)
  • حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث من گھڑت ہے۔”
    (تاریخ الإسلام للذہبی: 1191/5)
  • شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے خودساختہ قرار دیا ہے۔
    (منہاج السنۃ: 515/7)
  • علامہ ابن طاہر رحمہ اللہ نے بھی اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔
    (تخریج أحادیث الإحیاء للعراقی: 1830)
  • علامہ عبدالرحمن معلمی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع کہا ہے۔
    (حاشیہ الفوائد المجموعۃ للشوکانی، ص: 349)

خلاصہ:

یہ حدیث اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف اور منکر ہے۔ حدیث ابن عباس کے تمام طرق أبو معاویہ عن الأعمش عن مجاہد سے مروی ہیں، لہٰذا یہ بھی "ضعیف و مدلس” ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت کے بارے میں صحیح اور ثابت روایات موجود ہیں، اور ان کی فضیلت واضح ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!