مختصر خطبہ اور معتدل نماز کی فضیلت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

مختصر خطبہ اور لمبی نماز

➊ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان طول صلاة الرجل وقصر خطبته مثنة من فقيه
”آدمی کی (عام نمازوں سے ) لمبی نماز اور (عام خطبوں سے) چھوٹا خطبہ اس کی فقاہت کی علامت ہے۔“
[مسلم: 869 ، كتاب الجمعة: باب تخفيف الصلاة والخطبة ، ابن خزيمة: 1782 ، أحمد: 263/4]
➋ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كانت صلاة رسول الله قصدا وخطبته قصدا
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ دونوں معتدل (نہ زیادہ طویل اور نہ زیادہ چھوٹے ) ہوتے تھے ۔“
[مسلم: 866 ، أيضا ، ترمذي: 507 ، نسائي: 191/3 ، ابن ماجة: 1106]
امام ابن اثیرؒ رقمطراز ہیں کہ مقصد کا معنی یہ ہے کہ :
الوسط بين الطرفين
”دونوں طرفوں کے مابین درمیانی حصہ۔“
[النهاية لابن الأثير: 67/4]
(نوویؒ) ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ لمبی نماز سے مراد خطبے کے لحاظ سے طویل ہے نہ کہ ایسی طوالت مراد ہے جس سے مقتدی مشقت میں پڑ جائیں۔
[شرح مسلم: 326/3]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عقلمند و دانا خطیب وہی ہے جو جامع کلمات استعمال کرتے ہوئے مختصر خطبہ دے کیونکہ مختصر بات ہی یاد رکھنے اور ذہن نشین کرنے کے لیے آسان ہوتی ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی طویل خطبے سے احتراز کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله لا يطيل الموعظة ، إنما هن كلمات يسيرات
”رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت طویل وعظ و نصیحت نہیں فرماتے تھے بلکہ چند مختصر کلمات پر ہی اکتفا فرماتے تھے۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 979 ، كتاب الصلاة: باب إقصار الخطب ، أبو داود: 1107]
اس کے علاوہ کم از کم کتنا خطبہ جمعہ کے لیے کافی ہے اس میں علماء نے اختلاف کیا ہے جسے فقہ کی ضخیم و طویل کتب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
[المجموع: 392/4 ، الأم: 346/1 ، بدائع الصنائع: 262/1 ، المبسوط: 300/2 ، الهداية: 83/1 ، المغني: 180/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1