محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کیلئے مرزا غلام احمد قادیانی کی رغبت
تحریر: ابو حمزہ پر وفسر سعید مجتبی السعیدی، فاضل مدینہ یونیورسٹی

محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کیلئے مرزا غلام احمد قادیانی کی رغبت، سعی پیہم ، پیش گوئی اور ناکامی کی داستان عبرت

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
ہوشیار پور (پنجاب) میں مرزا صاحب کے رشتہ داروں میں سے ایک صاحب مسمی احمد بیگ رہتے تھے۔ وہ مرزا صاحب کے چچیرے بہنوئی تھے اور اس کے علاوہ بھی ان کی مرزا صاحب کے ساتھ تعلق داری تھی۔ ان کی ایک دختر محمدی بیگم تھی، جس کے بچپن سے جوانی تک کا پورا نشیب و فراز مرزا صاحب کے سامنے تھا۔ اس کے ابھرتے ہوئے خد و خال کو دیکھتے ہوئے مرزا صاحب نے کئی مرتبہ اپنی شادی کے الہامات شائع کئے جن میں صراحت کے ساتھ اگرچہ کسی کا نام نہیں لیا گیا تھا لیکن بعد میں انہوں سے خود یہ وضاحت کر دی کہ ان الہامات میں محمدی بیگم سے نکاح کی جانب اشارہ تھا۔
یہ مرزا صاحب کی بد قسمتی تھی یا خوش قسمتی کہ محمدی بیگم نے جب حدود بلوغت میں قدم رکھے تو تحریک نکاح کے اسباب بھی فراہم ہو گئے۔
ہوا یوں کہ احمد بیگ کی ایک بہن مرزا صاحب کے چچازاد بھائی غلام حسین کے ساتھ بیاہی ہوئی تھی۔ غلام حسین ۲۵ سال سے مفقود الخبر تھا اس لئے سرکاری کاغذات میں اس کی جائیداد اس کی بیوی یعنی احمد بیگ کی بہن کے نام درج کی جاچکی تھی۔ احمد بیگ نے اپنی بہن سے کہا کہ تم اپنی جائیداد میرے بیٹے محمد بیگ کو ہبہ کردو۔ بہن راضی ہو گئی اور اس نے ہبہ نامہ لکھ دیا لیکن اس وقت کے رائج انتظامی قانون کی رو سے یہ ہبہ نامہ مرزا صاحب کی رضامندی اور تصدیق کے بغیر نافذ نہ ہو سکتا تھا اس لئے احمد بیگ نے مرزا صاحب کی طرف رجوع کیا۔ مرزا صاحب تو موقع کی تاک میں تھے ہی۔ آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت ہوشیاری کے ساتھ منزل مقصود کی طرف قدم بڑھایا، یعنی احمد بیگ کو یہ کہ کرٹال دیا کہ پہلے استخارہ کر لیں تب کوئی فیصلہ کریں گے۔ اس کے بعد خاموشی سے احمد بیگ کے رد عمل اور حصول زمین کے سلسلہ میں اس کی خواہش و آرزو کا اندازہ کرنے لگے۔ احمد بیگ، مرزا صاحب کے پس پردہ مقاصد سے قطعی بے خبر تھا۔ وہ مرزا صاحب کو بار بار ہبہ نامہ کی تصدیق کی طرف متوجہ کرتارہا اور مرزا صاحب حسب دستور استخارہ پر ٹالتے رہے۔
جب انہوں نے احمد بیگ کے مسلسل اصرار سے اندازہ کر لیا کہ وہ بہر صورت جائیداد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک خط لکھا اور اسے صیغہ راز میں رکھنے کی سخت تاکید کی۔ اس خط کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ مرزا صاحب نے خدائی الہام کے حوالے سے برکت کے وعدوں اور آسمانی عذاب کی دھمکیوں کے درمیان احمد بیگ کو یہ اطلاع دی کہ اگر تم محمدی بیگم کا نکاح میرے ساتھ کر دو تو ہبہ نامہ پر دستخط کر دوں گا ورنہ کوئی سلوک و مروت نہیں کی جائے گی۔
احمد بیگ، شریف اور غیرت مند آدمی تھا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس پر کیا گزری ہو گی ؟ اس نے اپنے سالوں یعنی صاحب کے چچیرے بھائیوں نظام الدین وغیرہ سے اس شرم ناک سودے بازی کا ماجرا کہہ سایا۔ لوگ ٹھرک اٹھے اور نظام الدین نے مرزا صاحب کا یہ پوشیدہ خط شائع کر کے انہیں بیچ چوراہے میں ننگا کردیا لیکن مرزا صاحب اور خاموشی۔۔۔۔۔۔۔
مرزا صاحب نے جو خط لکھا وہ ان کے بقول چونکہ پیش گوئی پر مبنی تھا۔ اس لئے وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
خداتعالی نے اپنے کلام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اگر آپ اپنی دختر کلاں کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں تو وہ تمام مصیبتیں آپ کی دور کر دے گا۔ اگر یہ شتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کیلئے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہر گز مبارک نہ ہو گا اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہو گی۔ یہ دونوں طرف برکت اور سوت کی ایسی ہیں کہ جن کو آزمانے کے بعد میر ا صدق یا کذب معلوم ہو سکتا ہے“۔ (آئینہ کمالات مرزان ۲۷۹ ۲۸۰ «حسارو فشاں ۱۰مئی ۱۸۸۸ء)
مرزا صاحب نے خلاف تہذیب مطالبہ اور دھمکی آمیز خط سے بجائے اس کے کہ احمد بیگ وغیرہ ڈرتے انہوں نے اسے مشہور کردیا۔ جبکہ مرزا صاحب کی خواہش تھی کہ اسے مخفی رکھا جائے۔
ان کی اس کاروائی سے مرزا صاحب کو اور بھی غصہ آیا اور انہوں نے کھلے بندوں مندرجہ ذیل ایک اشتہار دیا:
اخبار نور افشاں ۱۰ مئی ۱۸۸۸ء میں جو خط اس راقم کا چھپایا گیا ہے وہ ربانی اشارہ سے لکھا گیا تھا۔ ایک مدت سے قریبی رشتہ دار مکتوب الیہ کے نشان آسمانی کے طالب تھے اور طریقہ اسلام سے انحراف رکھتے تھے۔ یہ لوگ مجھ کو میرے دعوی الہام میں مکار اور دروغ گو جانتے تھے اور مجھ سے کوئی نشانی آسمانی مانگتے تھے۔ کئی دفعہ ان کے لئے دعا کی گئی۔ دعا قبول ہو کر خدا نے یہ تقریب پیدا کی کہ والد اس دختر کا ایک ضروری کام کے لئے ہماری طرف ملتجی ہوا۔ قریب تھا کہ اس کی درخواست پر دستخط کر دیتے لیکن خیال آیا کہ استخارہ کر لینا چاہیے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔ پھر استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا گویا نشان آسمانی کی درخواست کا وقت آپہنچا۔ اس قادر حکیم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کی دختر کلاں (محمدی بیگم) کے لیے سلسلہ جنبانی کرو اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک و مروت تم سے اس شرط پر کیا جائے گا۔ اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت برا ہو گا۔ جس دوسرے شخص سے بیاہی جائی گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ خدا تعالی نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ہر ایک مانع سے دور کرنے کے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لائے گا۔ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے ’’ کذبوا بآ یاتنا وکانوا بها يستهزئون- سيكفيكهم الله وبررها اليك لا تبديل لكمات الله – ان ربک فعال لما يريد“ یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے سو خداتعالی ان کی تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہو گا۔ اور انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہمارے پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محکم امتحان نہیں۔ (اشتہار مرزا ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ء منقول از آمینه کمالات مصنف مرزا غلام قادیانی صفحه ۲۸۱-۲۸۸ ملحضاً)
اس سلسلے میں مرزا صاحب نے ایک اور اشتہار شائع کیا:
’’خداتعالی ہمارے کنبے اور قوم سے تمام لوگوں پر جو اس پیش گوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کرے گا اور ان سے لڑے گا اور ان کو انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا کرے گا۔ ان میں سے ایک بھی ایسانہ ہو گا جو اس عقوبت سے خالی ہے۔ ایک عرصہ سے یہ لوگ مجھے میرے الہامی دعاوی میں مکار اور دکاندار خیال کرتے ہیں پس خدا تعالٰی نے انہیں کی بھلائی کے لئے انہی کی درخواست سے الهامی پیش گوئی کو ظاہر فرمایا تا کہ وہ سمجھیں کہ وہ (خدا) در حقیقت موجود ہے۔ یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی محض بطور نشان کے ہے تا خدا تعالی اس کنبہ کے منکرین کو عجوبہ قدرت دکھا دے۔‘‘ (اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۸۸، مندرجہ ” تبلیغ رسالت” ج اص۱۱۸ ۱۱۹)

محمدی بیگم سے آسمان پر نکاح ہوا

اس اشتہار کے بعد بھی مرزا صاحب ان پیش گوئیوں کو اپنی تحریرات میں کئی بار دہراتے رہے یہاں تک کہ دسمبر ۱۸۹۱ء میں یہ دعویٰ کر دیا کہ ” اللہ تعالی نے محمدی بیگم کے ساتھ میرا نکاح خود پڑھادیا ہے“۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
خدا کی قسم یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے (یعنی خدانے) خود اس سے (اے مرزا) تیرا نکاح پڑھادیا ہے، میرے باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔“ (فیصلہ آسمانی ص ۴۰)
آسمان پر نکاح پڑھائے جانے کا اعتراف مرزا صاحب نے بعد کی تحریروں میں بھی کیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۰۷ء میں بابوانی بخش کے اعتراضات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھایا گیا ہے۔ یہ درست ہے۔“ (تتمہ حقیقۃ الوحی س ۱۳۲)

محمدی بیگم سے نکاح کے سلسلہ میں مرزا صاحب کی سعی پیہم کے باوجود ناکامی

لیکن احمد بیگ اور اس کے اقرباء چونکہ مرزا صاحب کے ان روحانی ہتھکنڈوں کو سرا پا عیاری سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے ان دھمکیوں کو پر کاہ کے برابر بھی وقعت نہ دی اور کچھ دنوں بعد محمدی بیگم کی نسبت پٹی ضلع لاہور کے رہنے والے ایک نوجوان سلطان محمد سے کر دی۔ مرزا صاحب کے لیئے خبر برقی سوزاں سے کم نہ تھی۔ انہوں نے اس نسبت کو تڑوانے اور محمدی بیگم کو حاصل کرنے کی بڑی بڑی تدبیریں کیں۔ سلطان محمد کو دھمکی اور لالچ سے اس رشتہ سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ احمد بیگ کو لمبے لمبے خطوط لکھے۔ خدا اور رسول کے واسطے دیئے۔ طرح طرح سے نشیب و فراز سمجھائے۔ بے پایاں دولت کا لالچ دیا۔ احمد بیگ کے جن اقرباء کے ہاتھوں میں اس نکاح کی کلید تھی ان کو بھی رقم دے دے کر ہموار کرنا اور آلہ کار بنانا چاہا۔ اپنی بہو سے اپنی سمدھن کے نام خط لکھوایا کہ تم اپنے بھائی احمد بیگ پر دباؤ ڈالو ورنہ مرزا صاحب اپنے لڑکے سے مجھے طلاق دلوادیں گے۔ پھر خود مرزا صاحب نے سمدھن کے نام خط لکھا جس میں نشیب و فراز سمجھانے اور مال و دولت کا لالچ دینے کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم احمد بیگ پر دباؤ نہ ڈالو گی تو تمہاری لڑکی کو یقین طلاق دلوادوں گا۔ غرض مرزا صاحب نے :
کیا کیا نہ کیا عشق میں، کیا کیا نہ کریں گے لیکن ان کی ایک نہ چلی اور ۷ اگست ۱۸۹۲ء کو بڑے کروفر کے ساتھ مرزا صاحب کی آسمانی منکوحہ کو سلطان محمد بیاہ لے گیا اور بے چارے مرزا صاحب بعد حسرت دیاس اپنا سامنہ لے کر رہ گئے :
بساحر تا که خاک شده
اب ایک بار پھر مرزا صاحب کی پیش گوئی پر نظر ڈال لیں:
اس میں مذکور تھا کہ :
➊ محمدی بیگم سے نکاح کرنے والا روز نکاح سے اڑھائی سال کے اندراندر
➋اور اس (محمدی بیگم ) کا والد تین سال کے اندراندر فوت ہو جائے گا
➌اور بالآخر وہ ( محمدی بیگم) مرزا صاحب کے نکاح میں آئی گی۔
اب ہوا یہ کہ :
محمدی بیگم کے نکاح کے صرف چھ ماہ بعد اس کے والد احمد بیگ کا ۳۰دسمبر ۱۸۹۲ء کو انتقال ہو گیا، حالانکہ مرزا صاحب کے پیش گوئی کے مطابق پہلے محمدی بیگم کے شوہر کا انتقال ہو نا تھا۔ مرزا صاحب کی پیش گوئی کے مطابق محمدی بیگم سے نکاح کرنے والے سلطان محمد ۱۲ کو اگست ۱۸۹۴ء کے بعد دنیا میں زندہ رہنے کی اجازت نہ تھی مگر وہ اللہ کے فضل سے ۱۹۳۰ء تک بقید حیات تھے۔

محمدی بیگم

محمدی بیگم سے نکاح کے بارے میں مرزا صاحب آخر دم تک پر امید ر ہے۔ چنانچہ ۶ اکتوبر ۱۸۹۴ء کے اشتہار میں لکھا کہ :
نفس پیش گوئی یعنی اس عورت ( محمدی بیگم) کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح مل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الہی میں یہ فقرہ موجود ہے ’’لا تبدیل لِکلماتِ اللہ‘‘یعنی میری یہ بات ہر گز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔ اس نے فرمایا کہ میں اس عورت کو نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے (اے مرزا) دوں گا اور میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی اور میرے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور میں سب روکوں (رکاوٹوں) کو اٹھادوں گا جو اس کے نفاذ سے مانع ہوں۔“ (تبلیغ رسالت جلد اول ص ۱۱۵)
اس کے بعد ۱۸۹۷ء میں ارشاد فرمایا: میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ یہ کام ( محمدی بیگم سے نکاح) ہو گیا، یہ کام ابھی باقی ہے اور یہ تقدیر مبرم ہے اس کا وقت آئے گا۔ قسم خدا کی جس نے حضرت محمدﷺ کو بھیجا ہے یہ بالکل سچ ہے۔ تم دیکھ لوگے اور میں اس خبر کو اپنے جھوٹے اور سچے ہونے کا معیار بناتا ہوں۔ اور میں نے جو کہا ہے یہ خدا سے خبر پاکر کہا ہے۔“ (انجام آتھم ص ۲۲۳)
پھر ۱۹۰۱ء میں عدالت میں ایک حلفیہ بیان دیتے ہوئے کہا:
’’احمد بیگ کی دختر کی نسبت جو پیش گوئی ہے وہ اشتہار میں درج ہے اور ایک مشہور امر ہے۔ وہ عورت میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہو گا، جیسا کہ پیش گوئی میں درج ہے۔ یہ عورت اب تک زندہ ہے میرے نکاح میں ضرور آئے گی۔ امید کیسی؟ یقین کامل ہے۔ یہ خدا کی باتیں ہیں۔ ٹلتی نہیں۔ ہو کر رہیں گی۔ “ (الحکم : قادیان ۱۰ اگست ۱۹۰۱ء ص ۱۴ کالم ۳)
اس کے بعد ۱۹۰۵ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مرزا صاحب نے لکھا:
الہام الہی کے یہ لفظ ہیں:’’ سیکفیکم اللہ ویردھا الیک یعنی خدا تیرے ان مخالفوں کا مقابلہ کرے گا اور اس (محمدی بیگم) کو تیری طرف لائے گا۔۔۔۔۔۔ وعدہ یہ ہے کہ پھر وہ نکاح کے تعلق سے واپس آئی گی، سو ایسا ہی ہو گا‘‘ ۔ ( الحکم قادیان ۳۰ جون ۱۹۰۵ء ص ۲ کالم ۳)
خلاصہ یہ کہ مرزا صاحب نے اپنی آسمانی منکوحہ کو سلطان محمد کے چنگل سے چھڑانے کے لئے بہت کچھ اگاڑی، پچھاڑی تڑائی بلکہ فرط جلال میں یہاں تک لکھ مارا کہ :
’’چاہیئے تھا کہ ہمارے ناداں مخالف اس پیش گوئی کے انجام کے منتظر رہتے اور پہلے ہی اپنی بد گوہری ظاہر نہ کرتے۔ بھلا جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں کی تو کیا اس دن یہ احمق مخالف جیتے ہی رہیں گے اور کیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو جائیں گے۔ ان بے وقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہ رہے گی اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان منحوس چہروں کو بند روا اور سوروں کی طرح کر دیں گے۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳)
اس سلسلے میں مسلسل ناکامیوں کے پیش نظر اپنی خفت کو چھپانے کے لئے مرزا صاحب نے بہت سی بے ہودہ اور مجنونانہ حرکتیں بھی کیں۔ انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بڑے لڑکے ڈپٹی سلطان احمد کو عاق کر دیا اور دوسرے لڑکے فضل احمد سے اس کی بیوی کو جو کہ احمد بیگ کی رشتہ دار تھی طلاق دلوادی یا طلاق دینے پر حتی الامکان مجبور کیا اور پھر فضل احمد کو بھی عاق کر دیا۔ (سیرت المہدی ص ۲۲-۲۳)
چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے تمام تر دعوؤں اور پیش گوئیوں میں جھوٹے تھے۔ اس لئے اللہ تعالی نے بھی اپنی مشیت سے اس کی ایک بھی پیش گوئی پوری نہ ہونے دے کر اس کے کاذب ہونے کا فیصلہ دے دیا۔ مرزا صاحب تو ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو محمدی بیگم سے نکاح کی آرزو دل میں بسائے آنجہانی ہو گئے۔ جبکہ سلطان محمد اور ان کے بیگم (محمدی بیگم )نے طویل عرصے تک زندگی پائی۔
چناچہ سلطان محمد نے مولانا سید محمد شریف گھڑیالوی رحمہ اللہ کے نام ایک خط لکھ کر اپنے حالات و خوش حالی سے آگاہ کیا اور قادیانیت سے بے زاری ہی نہیں بلکہ اس کے جھوٹے ہونے کی بھی تحریر دی۔ ان کا یہ خط اخبار اہل حدیث امر تسر کے شمارہ مجریہ ۱۴ نومبر ۱۹۳۰ء میں شائع ہوا اور محترمہ محمدی بیگم، مرزا صاحب کے آں جہانی ہونے کے بعد اٹھاون برس سے زائد عرصے تک زندہ رہیں اور نوے برس سے زائد عمر پا کر ۱۹ نومبر ۱۹۶۶ بروز ہفتہ لاہور میں انتقال کیا۔ اور اپنے پیچھے بیٹوں، بیٹیوں، پوتے پوتیوں ، اور نواسے نواسیوں کی ایک کثیر تعداد چھوڑی۔
محترمہ محمدی بیگم کے ایمان کی پختگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے وفات کے وقت آخری وصیت یہ کی تھی کہ کوئی مرزائی میرے جنازے میں نہ آئے۔
(ماخوذ از: محمدی پاکٹ بک، مولانا محمد عبد اللہ معمار رحمہ الله ، و قادیانیت، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمه الله )
مرزا صاحب کی اس داستان کو ملاحظہ کرنے کی بعد قارئین کی ضیافت طبع کے لئے مرزا صاحب کی تحریر ہی سے مرزا صاحب کا کذب واضح کیا جاتا ہے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر کوئی محکم امتحان نہیں ہو سکتا۔ (تبلیغ رسالت ج ا ص ۱۱۸- آئینہ کمالات اسلام ص ۲۸۸)
نیز مرزا صاحب رقم طراز ہیں:
’’کسی انسان کا اپنی پیش گوئی میں جھوٹا نکلنا تمام رسوائیوں سے بڑھ کر ہے“۔
اب مرزائیوں کے لئے یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مرزا جی !
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
( نزول مسیح، ص ۱۸۶)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل