الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد:
دنیاے اسلام کی تاریخ میں ’’متعہ‘‘ (عارضی نکاح) سے متعلق بعض روایات اور اقوال کے حوالے سے شیعہ حضرات ایک شبہ پیش کرتے ہیں کہ یہ نکاح (متعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جائز تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے اجتہاد سے حرام قرار دے دیا۔ اس مضمون میں ان کے اس دعوے کا علمی و تحقیقی جائزہ لیا جائے گا اور ثابت کیا جائے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محض اُس حکمِ نبوی کی تنفیذ کی جو پہلے سے موجود تھا، نہ کہ کوئی نیا حکم جاری کیا تھا۔ نیز ’’متعۃ الحج‘‘ کے حوالے سے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کی صحیح توجیہ و تعبیر پیش کی جائے گی۔
پہلا حصہ: متعہ کا ابتدائی حکم اور اس کا تدریجی نسخ
1۔ متعہ کا ابتدائی جواز
ابتدائے اسلام میں جب مسلمانوں کو شرعی احکام مرحلہ وار تعلیم کیے جا رہے تھے، بعض مواقع پر جنگوں اور خاص حالات میں عارضی نکاح (متعہ) کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے پس منظر میں یہ بات اہم تھی کہ مسلمان صحرائی جہاد کے دوران بیویوں سے دور رہتے، ناموافق حالات ہوتے، معاشرتی تقاضے مکمل نہ ہوتے، اور معاشرہ ابھی ابتدائی تربیت کے مراحل میں تھا۔ چنانچہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں عارضی طور پر متعہ کی اجازت دی گئی تھی۔
2۔ متعہ کی حرمت کا حکم متعدد احادیث میں
جوں جوں شریعتِ اسلامیہ کی تکمیل ہوئی، یہ عارضی اجازت مستقل طور پر منسوخ کر دی گئی۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری دور میں صریحاً متعہ کو حرام قرار دے دیا تھا۔ اس سلسلے کی چند اہم احادیث ملاحظہ ہوں:
-
حدیثِ علی رضی اللہ عنہ (حرمتِ متعہ اور گوشتِ گدھا)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے اور متعہ کرنے سے منع فرما دیا۔
حوالہ: صحیح بخاری (حدیث نمبر: 5115) ، صحیح مسلم (حدیث نمبر: 1407) -
حدیثِ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنۂ اوطاس (غزوۂ حنین) میں متعہ کی اجازت دی، لیکن تھوڑے دنوں بعد ہمیشہ کے لیے اس سے منع فرما دیا۔
حوالہ: صحیح مسلم (حدیث نمبر: 1405) -
حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھوڑی خوراک یا کھجور کے عوض چند دنوں کے لیے متعہ کر لیتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حریث کے واقعے کی وجہ سے اس سے منع فرما دیا۔
حوالہ: صحیح مسلم (حدیث نمبر: 1405)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں بعض مخصوص مواقع پر اس کی اجازت دی تھی لیکن بعد میں ہرگزرتے مرحلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس پر پابندی عائد ہوتی گئی، اور بالآخر آخری حکم کے طور پر اسے قطعی طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دَور میں اگر کہیں متعہ کے واقعات پیش آئے تو وہ اس بنیاد پر تھے کہ بہت سے صحابہ یا دیگر لوگ تک شاید نسخ کی خبر نہیں پہنچی تھی یا انہیں آخری حکمِ نبوی کا علم نہ ہو سکا تھا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے نبوی حکم کی روشنی میں سختی سے اس عمل سے روکا۔ یہی دراصل ان کے فرمان کا پس منظر ہے۔
دوسرا حصہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کی حقیقت
1۔ تاریخی روایت: ’’دو متعے جو رسول اللہ کے دور میں تھے…‘‘
بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
دو متعے ایسے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے، مگر میں ان سے منع کرتا ہوں۔
یہ روایت شیعہ حضرات بالعموم پیش کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دیکھو! حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود فرما رہے ہیں کہ یہ چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جائز تھیں اور عمر نے انہیں حرام کر دیا۔ حالانکہ اہلِ علم کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی نیا اجتہاد یا نیا حکم جاری نہیں کیا تھا، بلکہ جن لوگوں تک حرمتِ متعہ کا آخری نبوی حکم نہیں پہنچا تھا اُن پر اس حکم کو واضح کیا اور اس کی خلاف ورزی پر سختی کی۔
امام نووی رحمہ اللہ (متوفی 676ھ) صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں:
یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ جن صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور شروعِ خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں متعہ کیا، انہیں نسخ کی خبر نہیں پہنچی تھی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو صورتِ حال معلوم ہوئی تو انہوں نے اُس نبوی حکم پر سختی سے عمل درآمد کروایا۔
حوالہ: شرح النووی علی صحیح مسلم (جلد 9، صفحہ 179 کے قریب)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (متوفی 852ھ) فرماتے ہیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سختی اجتہادی معاملہ نہیں تھی، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کی تعمیل اور اس کے نفاذ پر مبنی تھی۔
حوالہ: فتح الباری شرح صحیح بخاری (جلد 9، کتاب النکاح)
تیسرا حصہ: متعۃ الحج اور اس کی وضاحت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ایک اور بات بھی ’’متعہ‘‘ کے لفظ سے بیان کی جاتی ہے، جس سے مراد حج تمتع (حج کے ساتھ عمرہ کو ملا کر ایک ہی سفر میں ادا کرنا) ہے۔ یہ شرعی طور پر درست اور جائز ہے، بلکہ قرآن کریم میں اس کی اجازت مذکور ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعض مواقع پر لوگوں کو الگ الگ سفر میں عمرہ اور حج کرنے کا مشورہ دیا تھا، تاکہ لوگ حج کو اس کے پورے آداب کے ساتھ اور عمرہ کو اس کے پورے آداب کے ساتھ الگ ادا کریں۔ اس سے ان کی غرض یہ ہرگز نہ تھی کہ حج تمتع شرعاً حرام ہے۔ چنانچہ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود بعض اوقات لوگوں سے فرماتے کہ تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پا لیا ہے۔
خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے والد (حضرت عمر) تو تمتع سے منع کرتے تھے؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
میرے والد کا منشا وہ نہیں تھا جو تم سمجھتے ہو۔ وہ اسے ناپسند نہیں کرتے تھے، بلکہ کچھ انتظامی اور احتیاطی پہلوؤں سے لوگوں کو مشورہ دیتے تھے۔
(مفہومِ روایت)
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود ایک موقع پر فرمایا:
اگر میں حج کرنے آؤں گا تو میں ضرور تمتع کروں گا۔
حوالہ: سنن الأثرم، اور مشہور شارحینِ حدیث نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
پس شیعہ حضرات کی جانب سے ’’دو متعوں‘‘ کا جو حوالہ دیا جاتا ہے، اس میں سے ایک متعۂ نساء (عارضی نکاح) ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی حیاتِ مبارکہ میں حرام قرار دے دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف اس حکمِ نبوی کی تاکید فرمائی اور مخالفین کو واضح کیا۔
دوسرا ’’متعۂ حج‘‘ (حجِ تمتع) ہرگز حرام نہیں کیا گیا، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ایک خاص حکمت کے تحت کسی موقع پر پسند نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے نہ اسے قطعی حرام قرار دیا اور نہ ہی ان کے نزدیک اس کے جواز میں کوئی شبہ تھا۔
چوتھا حصہ: شیعہ اعتراض کا رد اور علمی خلاصہ
احادیث کے تسلسل سے ثابت ہے کہ متعہ کا جواز ابتدائی تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا۔ یہ منسوخ حکم تھا جس پر تاحیات عمل نہیں ہو سکتا تھا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محض اُس نسخ کا نفاذ کیا۔
خود صحابۂ کرامؓ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ یا حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں متعہ کیا، انہیں حتمی حکمِ نبوی کا علم نہ تھا۔ اس لیے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے کھلے الفاظ میں آگاہ کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہمیشہ کے لیے حرام فرما دیا ہے۔
امام نووی، حافظ ابن حجر، امام قاضی عیاض اور دیگر مفسرین و محدثین اس پر متفق ہیں کہ عہدِ عمرؓ میں متعہ کی ممانعت کوئی نئی ایجاد نہیں تھی۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی اسے حرام کیا تھا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اقدام عین سنتِ نبوی کے مطابق تھا۔
حج تمتع کی صورت میں ’’متعۃ الحج‘‘ کو حرام ٹھہرانا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود ہی نہ تھا۔ انہوں نے بعض جگہوں پر لوگوں کی سہولت یا کسی انتظامی مصلحت کی بنا پر ایک الگ سفر میں عمرہ کرنے کا مشورہ دیا، لیکن اسے مستقل طور پر حرام قرار نہیں دیا۔
قرآن و سنت کی روشنی میں چاروں فقہی مذاہب (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) اور جمہور صحابہ و تابعین کا اجماع ہے کہ متعۂ نساء حرام ہے۔ شیعہ حضرات کا اِسے حلال قرار دینا قرآن و حدیث اور فہمِ صحابہ کے صریح خلاف ہے۔
حوالے اور مآخذ
- صحیح مسلم: حدیثِ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ (حدیث نمبر: 1405، کتاب النکاح)
- صحیح مسلم: حدیثِ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ (حدیث نمبر: 1405، کتاب النکاح)
- صحیح مسلم: حدیثِ علی رضی اللہ عنہ (حدیث نمبر: 1407، کتاب النکاح)
- صحیح بخاری: حدیثِ علی رضی اللہ عنہ (حدیث نمبر: 5115، کتاب النکاح)
- صحیح بخاری: باب: نکاح المتعہ اور خیبر کا واقعہ
- شرح نووی علی صحیح مسلم: جلد 9، صفحہ 179 وما بعدہ (مطبوعہ بیروت)
- فتح الباری شرح صحیح بخاری: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، جلد 9، کتاب النکاح۔
- سنن النسائی، سنن الترمذی، سنن ابی داؤد: نکاح المتعہ کے ابواب میں احادیث کا تذکرہ موجود ہے۔
- فتاویٰ اسلام ویب (Islamweb): جن میں متعہ کے حکم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کی وضاحت ملتی ہے۔
- فتویٰ نمبر: 485 وغیرہ۔
نتیجۂ کلام
متعہ کے بارے میں شیعہ حضرات کا یہ دعویٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے اسے حرام کیا، سراسر بے بنیاد اور خلافِ واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ متعہ ابتدائی دور میں عارضی مصلحت کے تحت جائز رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی اسے ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دے دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف اسی نبوی حکم کو نافذ کیا اور جن لوگوں نے لا علمی میں متعہ کیا، انہیں آگاہ کر دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متفقہ فیصلے اور بعد کے تمام ائمۂ اہلِ سنت والجماعت کے اجماع کی رو سے متعہ کا جواز ختم ہو چکا ہے اور اس کا حرام ہونا طے ہے۔ اس لیے شیعہ حضرات کا اسے ’’سنتِ نبوی‘‘ کہہ کر رائج کرنا یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر الزام دھرنا علمی، تاریخی اور شرعی اعتبار سے غلط اور مردود ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
واللہ اعلم بالصواب۔