1. تمہیدی کلمات
ماہِ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو رمضان المبارک سے پہلے آتا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت نفلی روزوں کا اہتمام فرمایا اور اس کی مختلف حکمتیں بیان فرمائیں۔ دوسری طرف عوام میں پندرہویں شعبان سے متعلق کئی ضعیف یا گھڑی ہوئی روایات مشہور ہوگئی ہیں، جن کی بنیاد پر گوناگوں بدعات جنم لے چکی ہیں۔ اس مضمون میں کتاب و سنت کی روشنی میں ماہِ شعبان کے درست احکام کو واضح کیا گیا ہے تاکہ عمل کی درست راہ متعین ہوسکے۔
2. شعبان کی وجہ تسمیہ
“شعبان” کا لفظ عربی زبان کے لفظ “شَعْبٌ” سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں “پھیل جانا”۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وَسُمِّيَ شَعْبَانُ لِتَشَعُّبِهِمْ فِيْ طَلَبِ الْمِيَاهِ، أَوْ فِي الْغَارَاتِ بَعْدَ أَنْ يَخْرُجَ شَهْرُ رَجَبٍ الْحَرَامُ"(فتح الباری، جلد 4، صفحہ 213)
ترجمہ: “اس مہینے کا نام شعبان اس لیے پڑا کہ اہلِ عرب اس میں پانی کی تلاش میں منتشر (پھیل) ہوجاتے تھے، یا اس لیے کہ وہ رجب (جو حرمت والا مہینہ ہے) کے بعد جنگ وجدال کے لیے ادھر ادھر نکل جاتے تھے۔”
3. شعبان کی اہمیت اور عمومی فضیلت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کو “رجب اور رمضان کے درمیان ایسا مہینہ” قرار دیا جس میں لوگ عموماً غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک واضح فضیلت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھے اور فرمایا کہ اس میں انسانوں کے سالانہ اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔
4. ماہِ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات
4.1 بکثرت روزے رکھنا
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 1969)
ترجمہ: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے پورے روزے رکھتے کبھی نہیں دیکھا اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھے ہوں۔”
ایک اور روایت میں فرماتی ہیں:
"كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا"
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1710)
ترجمہ: “آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً پورا شعبان روزے سے رہتے تھے، البتہ چند دنوں کے علاوہ۔”
4.2 مسلسل دو مہینوں کے روزے
ام المؤمنین امِ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ"
(سنن ترمذی، حدیث نمبر 736، صحیح)
ترجمہ: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ مسلسل دو مہینے کے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔”
ان روایات کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان میں نہایت اہتمام سے روزے رکھے، بلکہ کسی اور مہینے کی نسبت اس ماہ میں زیادہ نفلی روزے رکھے۔
5. شعبان میں روزوں کی حکمت
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: “یا رسول اللہ! میں آپ کو کسی مہینے میں اس قدر روزے رکھتے نہیں دیکھتا جتنا آپ شعبان میں رکھتے ہیں؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں دو وجوہات بیان فرمائیں:
"ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ، بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ"
(سنن نسائی، حدیث نمبر 2356، حسن)
ترجمہ: “یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان کے درمیان ہونے کی وجہ سے لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال ربّ العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں؛ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔”
اس حدیث سے درج ذیل دو حکمتیں معلوم ہوتی ہیں:
- غفلت کا دور: رجب اور رمضان کے درمیان ہونے کے سبب لوگ اس مہینے میں عام طور پر غافل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اس وقت کی عبادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص اہمیت دی۔
- سالانہ اعمال کی پیشی: شعبان میں بندوں کے سال بھر کے اعمال اللہ تعالی کے حضور پیش ہوتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لمحے کو بھی روزہ رکھتے ہوئے پانے کا اہتمام فرمایا۔
6. نصفِ شعبان (پندرہویں شعبان) کے حوالے سے احادیث کا جائزہ
ماہِ شعبان کے عمومی فضائل اپنی جگہ، لیکن پندرہویں شعبان سے متعلق بہت سی روایات زبانِ زدِ عام ہیں، جن میں اس رات کو “شب برات” کہہ کر خصوصی عبادات، نزولِ رحمت، تقسیمِ امور اور بڑے بڑے فضائل ذکر کیے جاتے ہیں۔ علمی تحقیق اور محدثین کے نزدیک ان میں سے کوئی بھی روایت صحیح یا ثابت نہیں۔ اس ضمن میں چند مشہور احادیث اور ان کا حکم پیش کیا جاتا ہے:
6.1 “نصفِ شعبان کی رات کو قیام اور دن میں روزہ” والی حدیث
"إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا، وَصُومُوا نَهَارَهَا"
(سنن ابن ماجہ وغیرہ میں منقول)
محققین کے نزدیک یہ روایت سخت ضعیف بلکہ موضوع (من گھڑت) ہے۔ اس کا راوی “ابوبکر بن محمد” متہم بالوضع (حدیثیں گھڑنے والا) ہے۔ لہٰذا اس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں۔
6.2 “اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے” والی روایت
بعض روایات میں ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتا ہے۔ (مثلاً: ضعیف ابن ماجہ، حدیث نمبر 262)
یہ روایت اسناد کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ محدثین نے سند میں انقطاع اور ضعیف راویوں کی نشان دہی کی ہے۔ امام دارقطنی اور ابوحاتم الرازی وغیرہ نے بھی اس حدیث کو ناقابلِ حجت قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ نزولِ الٰہی کی صحیح روایت ہر رات کے آخری تہائی حصے میں نزول سے متعلق موجود ہے، جو مسلم اور بخاری وغیرہ میں متفق علیہ حدیث ہے۔ اسے مخصوص طور پر صرف نصف شعبان کی رات کے ساتھ نہیں جوڑ سکتے۔
7. نصف شعبان کی رات کے مشہور اعمال اور ان کا حکم
7.1 خصوصی شب بیداری، صلاۃ الالفیہ وغیرہ
کہیں ایک ہزار رکعت (صلوٰۃ الفیہ) پڑھی جاتی ہے، کہیں سو رکعات، چودہ رکعات یا بارہ رکعات کو مخصوص انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ یہ سب اعمال بدعت ہیں کیونکہ اس بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔
7.2 اجتماعی مجالس، اجتماعی دعا و ذکر
بعض علاقوں میں پندرہ شعبان کی رات میں مساجد میں اجتماعات ہوتے ہیں، اجتماعی ذکر، اجتماعی دعا اور مخصوص وظائف کیے جاتے ہیں۔ اس کی بھی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔ ہر وہ عمل جو بطورِ خاص اسی رات کے لیے گھڑا جائے اور اس پر فضیلت کا اعتقاد رکھا جائے، وہ بدعت ہے۔
8. نصف شعبان کے دن کا روزہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان میں (بکثرت) روزے رکھتے تھے۔ مخصوص طور پر پندرہ شعبان کے روزے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ملتی۔ جو حدیث اس بارے میں بیان ہوتی ہے (جیسے ابن ماجہ وغیرہ میں)، وہ شدید ضعیف ہے۔ اگر کسی نے اپنا معمول بنایا ہو کہ وہ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہو یا ایامِ بیض کے روزے رکھتا ہو اور وہ پندرہ شعبان کو آجائیں، تو یہ درست ہے، مگر “خصوصی روزہ” کا اعتقاد کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔
9. قبرستان جانا اور فاتحہ خوانی
بعض روایات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو آپ بقیع (قبرستان) میں تشریف لے گئے تھے۔ یہ بھی اکثر لوگ پندرہ شعبان کی رات کے ساتھ خاص کردیتے ہیں، حالانکہ ان روایات میں کوئی تعیین نہیں اور وہ بھی سنداً کمزور ہیں۔ قبرستان کی زیارت کے لیے کوئی خاص رات یا تاریخ مسنون نہیں۔ یہ تو ہر وقت جائز و مستحب عمل ہے بشرطیکہ شرعی آداب ملحوظ رہیں۔
پندرہ شعبان کی رات اجتماعی طور پر قبرستان کا رُخ کرنا، وہاں چراغاں کرنا، قبروں پر رنگ و روغن اور میلے ٹھیلے کا سماں بنانا — یہ سب غیر شرعی کام اور بدعات ہیں۔
10. پندرہ شعبان سے متعلق بدعات و خرافات
- حلوہ پوری اور دیگر پکوان کی رسم: بعض لوگ اس رات کے لیے خصوصی طور پر حلوہ پکاتے اور فاتحہ دلاتے ہیں، یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس سے فوت شدگان کی روحوں کو ایصالِ ثواب ہوتا ہے، یا روحیں گھر آتی ہیں۔ یہ سب اعتقادی بدعات ہیں جن کی کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں نہیں۔
- آتش بازی اور پٹاخے: بہت سی جگہوں پر اس رات آتش بازی کی جاتی ہے جس میں مال بھی ضائع ہوتا ہے اور ماحولیات و انسانی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ یہ سراسر فضول خرچی اور شیطانی عمل ہے۔
- رسمی قبرستانی میلے: قبروں کی صفائی، چونا پھیرنا، چراغاں کرنا اور مرد و خواتین کی مخلوط بھیڑ لگانا، یہ سب اشیاء دین میں قطعاً ثابت نہیں۔
11. متعلقہ احادیث کے ضعف پر محدثین کے اقوال
مشہور محدثین جیسے امام ابوحاتم الرازی، امام دارقطنی، امام بیہقی، امام ابن مہدی، امام احمد بن حنبل، امام ابنِ معین، امام ابوزرعہ رازی، حافظ ابو الخطاب ابنِ دحیہ، حافظ ابن رجب وغیرہ سب نے پندرہ شعبان کی رات کے حوالے سے وارد ہونے والی روایات کو ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض تابعین (خصوصاً اہل شام میں خالد بن معدان، مکحول وغیرہ) کو کچھ اسرائیلی روایات پہنچیں، جن کی بنیاد پر انہوں نے پندرہ شعبان کی رات میں قیام وغیرہ کا اہتمام شروع کیا۔ لیکن حجاز اور دیگر علاقوں کے زیادہ تر علماء نے اس کی مخالفت کی اور اسے بدعت قرار دیا۔ (لطائف المعارف، صفحہ 263)
12. ماہِ شعبان میں مسنون اعمال کا خلاصہ
- کثرتِ روزے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے بیشتر دن روزے رکھتے تھے۔ یہ نفلی روزوں کے لیے ایک بہترین مہینہ ہے۔
- سنتِ قیام اللیل کا اہتمام: عام راتوں میں تہجد ادا کرنے کی ترغیب موجود ہے۔ کوئی رات مخصوص نہیں، تاہم شعبان میں عمومی عبادت کا شوق بڑھانا افضل ہے۔
- تلاوتِ قرآن: سلف صالحین اس مہینے میں قرآنِ کریم کی تلاوت کو خوب بڑھا دیتے تھے۔ تابعین کو تو اس مہینے میں “ماہِ تلاوت” یا “شہر القراء” کہتے تھے۔
- استغفار اور توبہ: رمضان کے استقبال کے لیے روحانی تیاری ضروری ہے۔ اس ماہ میں خوب استغفار کرتے ہوئے اپنے گناہوں سے توبہ کی جائے۔
- صدقات و خیرات: صدقہ ہر وقت مستحب ہے مگر خصوصی طور پر شعبان میں بھی اس میں اضافہ کرکے غریبوں اور مساکین کی مدد کی جائے۔
13. اختتامی دعا اور نصیحت
ماہِ شعبان ہمیں رمضان کے لیے ذہنی اور روحانی طور پر تیار کرتا ہے۔ اس مہینے کا اصل مغز نفلی روزوں کا اہتمام اور عبادات میں زیادتی ہے، بدعات اور بے اصل رسومات کا فروغ نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ماہِ شعبان کی صحیح قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ان تمام بدعات و خرافات سے بچائے جو عوام میں رائج ہوچکی ہیں۔ ہم کتاب و سنت پر عمل پیرا ہوکر رمضان المبارک کی صحیح معنوں میں تیاری کریں اور اس کے فیوض و برکات حاصل کریں۔ آمین یا رب العالمین۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
(البقرہ: 127)
ترجمہ: “اے ہمارے رب! ہم سے (عبادات کے اعمال) قبول فرما لے۔ بے شک تو ہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔”
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین۔