ماں کے پیٹ میں فوت ہو جانے والے بچے کی نماز جنازہ

حافظ ندیم ظہیر، پی ڈی ایف لنک

نا تمام بچے کی نماز جنازہ کا حکم

سوال :

اگر بچہ ماں کے پیٹ ہی میں فوت ہو جائے تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ؟ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر پیدائش کے وقت چیخ مارے تب جنازہ ہوگا ورنہ نہیں، براہ مہربانی اس کی بھی وضاحت کر دیں، جزاک اللہ خیراً۔

جواب:

اس مسئلے میں دونوں طرح کی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جنھیں ہم درج ذیل سطور میں نقل کر کے راجح موقف واضح کریں گے۔ جولوگ جنازے کے لیے پیدائش کے وقت چیخ کو لازم قرار دیتے ہیں ان کے دلائل حسبِ ذیل ہیں:

’’عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: (( الظُّفُلُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ وَ لَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّى يَسْتَهلَّ ))

’’ بچے پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی ، نہ وہ وارث ہے اور نہ اس کا کوئی وارث ہو گا حتی کہ پیدائش کے وقت روئے ( یا چیچ مارے)“

اس روایت کو امام ترمذی (۱۰۳۲) نے روایت کیا ہے،
لیکن اس کی سند میں ابوالز بیر مشہور مدلس ہیں
اور سماع کی صراحت بھی نہیں،
لہٰذا یہ ابوالز بیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

اس روایت کے دیگر شواہد بھی ملاحظہ کیجئے:

(( إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ صُلِيَّ عَلَيْهِ وَ وُرت .))

’’جب بچہ چیخ مارے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور وہ وارث بھی بنے گا۔‘‘

ابن ماجہ (۱۵۰۸)
یہ روایت ربیع بن بدر متروک (التقریب: ۱۸۸۳ )

اور ابوالز بیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔

انھیں الفاظ کے ساتھ یہ روایت ابن حبان (۶۰۳۲) میں بھی موجود ہے
اور اس میں سفیان ثوری اور ابو الزبیر دونوں کا عنعنہ ہے،
لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
یہ روایت المستدرك للحاكم ( ٤ / ٣٤٨) میں بھی اسی علت کے ساتھ موجود ہے۔

واضح رہے کہ اس روایت کے تمام طرق اور شواہد ضعف سے خالی نہیں ، پس ان سے استدلال جائز نہیں ہے۔

تنبیہ:

بعض اہل علم ایسی روایات کو بطور شاہد نقل کرتے ہیں جن میں سرے سے ’’لا يُصَلَّى عَلَيْهِ ‘‘ ہے ہی نہیں ، مثلاً صحیح ابن حبان کی مذکورہ روایت کی تحقیق کرتے ہوئے جناب شعیب ارنا وط صاحب سنن ابن ماجه (۲۷۵۱) کی ایک صحیح حدیث:

(( لَا يَرِثُ الصَّبِيُّ حَتَّى يَسْتَهلَّ صَارِخا ))

’’ ( ولادت کے بعد ) بچہ اگر آواز سے نہ روئے تو وہ وارث نہیں ہوتا ۔ “ کو بطور شاہ نقل کر رہے ہیں۔

دیکھئے ابن حبان (۳۹۴/۱۳)

حالانکہ اس میں سرے سے نماز جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہی نہیں،
لہذا ’’ لا يُصَلَّى عَلَيْهِ “ کا یہ حدیث قطعاً شاہد نہیں بن سکتی۔

قارئین کرام ! مذکورہ بحث سے معلوم ہوا جو علمائے کرام بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے رونے یا چیخ مارنے کی قید لگاتے ہیں ان کا استدلال ضعیف روایات سے ہے، اس کے بر عکس صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ مردہ حالت میں پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، چنانچہ سید نا مغیرہ بن شعبہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

((الرَّاكِبُ يَسِيرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ وَ الْمَاشِي يَمْشِي خَلْفَهَا وَ أَمَامَهَا وَ عَنْ يَمِينِهَا وَ عَنْ يَسَارِهَا قَرِيبًا مِنْهَا وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَيُدْ عَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَ الرَّحْمَةِ.))

’’سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل جانے والے اس کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں اس کے قریب قریب چلیں، اور نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت و رحمت کی جائے ۔“

( سنن أبي داود : ۳۱۸۰ وسنده صحيح)

یہ حدیث دلیل ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ روئے یا نہ روئے ، یعنی مردہ حالت میں پیدا ہوتب بھی اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے نا تمام چھوٹے بچے کی نماز جنازہ ادا کی، میں نہیں جانتا کہ وہ رویا تھا یا نہیں ، آپ نے اس کے گھر میں جنازہ پڑھا، پھر ا سے تدفین کے لیے بھیج دیا۔

(مصنف عبد الرزاق ٣/ ٥٣٠ واللفظ له، مصنف ابن أبي شيبة ٣ / ٩ ح ١١٥٨٤ وسنده صحيح)

امام محمد بن سیرینؒ نے فرمایا:

’’ يُصَلَّى عَلَى الصَّغِيْرِ كَمَا يُصَلَّى عَلَى الْكَبِيرِ

جس طرح بڑے کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح چھوٹے بچے کی بھی ادا کی جائے گی۔

(مصنف ابن أبي شيبة ٣/ ۱۰ ح ١١٥٩١ وسنده صحيح)

ابن سیرینؒ کی دوسری روایت میں ” السقط“ کے الفاظ بھی ہیں۔

دیکھئے ابن أبي شيبة (١٠/٣ ح ١١٥٨٨ وسنده حسن)

امام احمد بن حنبلؒ سے ایسے بچے کی نماز جنازہ سے متعلق پوچھا گیا:

’’ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَ إِنْ لَمْ يَسْتَهِلْ ، قَالَ: نَعَمْ .

بچے کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی، اگر چہ وہ نہ روئے؟ آپ نے فرمایا:

جی ہاں۔

( مسائل الأمام أحمد رواية ابنه عبد الله: ٥٢٩)

راجح موقف:

صحیح حدیث اور اثر صحابی کی رُو سے راجح یہی ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ روئے یا نہ روئے ، چیخ مارے یا نہ مارے بہر صورت اس کی نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے، اس کے برعکس موقف اس لیے قابل التفات نہیں کہ اس کی بنیاد ضعیف روایات پر ہے۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: