ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏من الكبائر شتم الرجل والديه ‏‏‏‏ قيل: وهل يسب الرجل والديه؟ قال: ‏‏‏‏نعم يسب ابا الرجل فيسب اباه ويسب امه فيسب امه ‏‏‏‏ متفق عليه
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔“ کہا گیا کہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہاں! کہ وہ کسی آدمی کے باپ کو گالی گلوچ کرتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی گلوچ کرتا ہے اور یہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے۔“ [بخاري و مسلم]
تخریج: [بخاري الادب باب لايسب الرجل والديه 404/10] ، [مسلم الايمان 146] وغیرھما

فوائد :
➊ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کو ”اف“ کہنے اور جھڑکنے سے منع فرمایا :
فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا [ 17-الإسراء:23]
”تم ان کو اف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو اور ان کو عزت سے مخاطب کرو۔“
گالی دینا تو بہت ہی دور کی بات ہے۔
➋ والدین کو اگرچہ خود گالی نہ دے اور نہ ہی تکلیف دے مگر ایسا کام کرے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ کوئی انہیں گالی دے یا تکلیف پہنچائے تو یہ حرام ہے۔
➌ جس کام کے نتیجہ میں خطرہ ہو کہ کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔ وہ کام بھی ناجائز ہے مثلاً کسی کے والدین کو گالی دینے سے خطرہ ہے کہ وہ اس کے والدین کو گالی دے گا اگرچہ یہ ضروری نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے والدین کو گالی نہ دے فقہاء کی اصطلاح میں اسے سد ذرائع کہتے ہیں۔
سد ذرائع کی ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ [6-الأنعام:108 ]
”اور جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو نہیں تو بے سمجھی سے ضد میں آ کر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔“
ایک اور دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : اے عائشہ ! اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت سے (اسلام میں )آئی ہوئی نہ ہوتی تو میں بیت اللہ کے متعلق حکم دیتا اور اسے گرا دیا جاتا اس کا جو حصہ اس سے نکال دیا گیا ہے میں اس میں داخل کر دیتا اور اسے عین زمین کے ساتھ ملا دیتا اس کا ایک مشرقی دروازہ بنا دیتا اور ایک مغربی اور اسے ابراہیم عیہ السلام کی بنیاد پر پہنچادیتا۔ [بخاري / الحج 42 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے سے کعبہ کو نہیں گرایا کہ کعبہ کو گرانے سے یہ نئی نئی مسلمان ہونے والی قوم شبهات میں مبتلا نہ ہو جائے حالانکہ کعبہ کو گرا کر دوبارہ بنانے میں بہت سے فائدے تھے۔
البتہ ایک بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ لوگوں کے گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے صرف وہ کام چھوڑ سکتا ہے جو ضروری نہ ہو بلکہ اختیاری ہو۔ اگر فرض کی ادائیگی سے کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی پروا نہیں کی جائے گی مثلا اگر کوئی شخص نماز کی دعوت دینے سے بدزبانی شروع کر دے تو نماز کی دعوت ترک نہیں کی جائے گی۔ صرف اختیاری کام چھوڑے جا سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک عنوان قائم کیا ہے باب من ترك بعض الاختيار مخافة ان يقصر فهم بعض الناس فيقوا فى اشد منه یعنی اس شخص کا بیان جو بعض اختیاری چیزیں (جو ضروری نہ ہوں) اس خوف سے چھوڑ دے کہ بعض لوگوں کی سمجھ اس سے قاصر رہے گی۔ تو وہ اس سے بھی سخت چیز میں جا پڑیں گے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے