سوالات اور ان کے محرکات
وہ سوالات جو معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے ہوں، جائز اور مفید ہیں، لیکن اگر یہی سوالات کسی اور مقصد، جیسے شکوے یا اعتراض کے طور پر کیے جائیں، تو یہ گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔
اگر کسی پر تنگی اور مشکلات آئیں تو اسے شکوہ کرنے کی اجازت نہیں، البتہ وہ مسائل کو سمجھنے کے لیے سوال پوچھ سکتا ہے۔
اللہ کی عطا اور حکمت
اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو مال و دولت، گھر بار اور دنیاوی آسائشیں عطا فرماتے ہیں، جبکہ کچھ کو تنگدستی میں رکھتے ہیں۔
خاندانی پس منظر، ذاتی قابلیت، اور ماحولیاتی اثرات کا انکار ممکن نہیں، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اعلیٰ صلاحیت کے حامل افراد کو مال کی فراوانی نہیں دیتے۔
حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مال جسے چاہیں عطا کرتے ہیں، لیکن علم صرف اسے ملتا ہے جو اللہ سے طلب کرے۔
مال و دولت کی حقیقت
مال و دولت کو ہمیشہ اچھی چیز سمجھنا غلط ہے۔ اگر نیک انسان کو مال دیا جائے تو وہ اسے بھلائی میں خرچ کرتا ہے، لیکن اگر بدکردار شخص مالدار ہو تو وہ گمراہی کا شکار رہتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مال اور اولاد آزمائش ہیں:
﴿إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ﴾
"بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں۔”
(التغابن: ۱۵)
بہت سے لوگ اس آزمائش میں ناکام ہو چکے ہیں۔ کئی مالدار اپنی کثرتِ دولت کے باوجود ایمان کی روشنی سے محروم ہیں۔
استدراج اور روحانی زوال
بعض لوگوں کو مال و دولت کی فراوانی اللہ کی ناراضگی اور ان کی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے، جسے استدراج کہتے ہیں۔
استدراج کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے افراد کو دنیاوی نعمتیں عطا کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ نعمتیں ان کے لیے تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔
حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ کی مثال
حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ ایک عظیم شخصیت تھے، جن کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ اسے پورا کر دیتے ہیں۔ (البخاری، الصلح؛ مسلم، القیامۃ)
باوجود اس کے کہ وہ اللہ کے محبوب بندے تھے، ان کے پاس کھانے کے لیے روٹی اور رہنے کے لیے مناسب جگہ نہیں تھی، لیکن ان کی روحانی عظمت اور دل کا نور قابلِ رشک تھا۔
فقر اور مالداری: نعمت یا مصیبت؟
فقر یا مالداری اپنی ذات میں نہ نعمت ہیں نہ مصیبت، بلکہ موقع اور حالات کے مطابق ان کی حیثیت بدلتی رہتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فقر کو اپنی مرضی سے اختیار کیا اور فرمایا:
’’کیا تم پسند نہیں کرتے کہ ان (کافروں) کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟‘‘ (البخاری، تفسیر، ۶۶؍۲)
خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بیت المال سے صرف ضرورت کے مطابق وظیفہ لیا اور کبھی زیادہ کا مطالبہ نہیں کیا۔
فقر کی مختلف اقسام
فقر بعض اوقات نعمت اور بعض اوقات مصیبت بن جاتا ہے۔ اگر فقر سے شکوہ اور ناشکری جنم لے تو یہ کفر بن سکتا ہے، لیکن اگر اسے صبر اور شکر کے ساتھ قبول کیا جائے تو یہ عظیم نعمت بن جاتا ہے۔
کلامِ شاعر
ایک شاعر نے کہا ہے:
’’اے رب! آپ کی ہر عطا قبول ہے، چاہے خلعت ہو یا کفن، پھول ہو یا کانٹا۔ آپ کی نعمت اور آزمائش دونوں اچھی ہیں۔‘‘
مضبوط تعلقِ بندگی کی اہمیت
جس انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہو، اسے مالداری یا غربت نقصان نہیں پہنچاتی۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کی مثال دی جاتی ہے، جنہوں نے دنیاوی مال و جاہ کے باوجود روحانی بلندی پر قدم رکھا۔
لیکن اگر کسی شخص کا اللہ سے تعلق ٹوٹ جائے تو فقر یا مالداری دونوں ہی اس کے لیے نقصان دہ بن جاتے ہیں۔
نتیجہ
اصل چیز دل کی کیفیت اور نیت ہے۔ اگر دل اللہ سے جڑا ہوا ہو تو دنیاوی حالات اس پر اثرانداز نہیں ہوتے، لیکن اگر اللہ سے تعلق کمزور ہو جائے تو مال بھی آزمائش بن جاتا ہے اور فقر بھی تباہی کا باعث ہو سکتا ہے۔