اگر کسی قوم کا تعلق اپنے ماضی سے ختم ہو جائے تو اس کا حال ایسا ہوتا ہے جیسے کسی ناجائز بچے کا ہو جسے پیدا ہوتے ہی کوڑے دان میں پھینک دیا گیا ہو، اور وہ ساری زندگی اپنی اصل شناخت کی تلاش میں بھٹکتا رہے۔ وہ لوگ جو اپنے ماضی سے کٹ جاتے ہیں، ان میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، اور یہ مسائل مختلف طریقوں سے افراد اور قوموں کی شخصیتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ماضی سے کٹ جانے کے نفسیاتی اثرات:
- جھوٹے سہارے تلاش کرنا: جب قومیں اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہیں، تو وہ جھوٹے سہارے تلاش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، آج کی استعماری دنیا میں امریکہ کی بالادستی کو قبول کرنا۔ یہ لوگ کبھی مصر کے اہراموں میں، کبھی روم اور یونان کے مقبروں میں، اور کبھی مایا تہذیب کی باقیات میں اپنی اصل کھوجنے لگتے ہیں۔ ان کی جستجو یہیں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ وہ اپنی اس کھوج کو پوری دنیا پر رائج کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ جدید استعماری قوتیں، پوری تہذیبوں کو ایک بھوکے عفریت کی طرح نگل جاتی ہیں۔
- دوسروں کی تاریخ مسخ کرنا: ماضی سے تعلق ٹوٹنے کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایسی قومیں اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جسے "استشراق” کہا جاتا ہے۔ مستشرقین کی جانب سے اسلام کے خلاف پھیلائی جانے والی باتیں اتنی چالاکی سے ہوتی ہیں کہ صرف ایک صاحب بصیرت اور علم والا شخص ہی ان کے مقاصد کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ حق و باطل اور علم و جہل کی آمیزش سے کام لیتے ہیں۔
استشراق کا طریقہ واردات:
- تعریف کے پردے میں زہر: پہلے یہ تعریف کرکے خود کو غیرجانبدار ثابت کرتے ہیں، اور پھر جہاں ان کا مقصد پورا ہوتا ہے، وہاں تحقیق کے نام پر روایتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ یہ اپنی بات کو سائنسی کہہ کر خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایسی باتیں داخل کرتے ہیں کہ قاری کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ زہر کب انجیکٹ ہو گیا ہے، اور وہ انہی کے نظریات کا حامی بن جاتا ہے۔
- مغلوب کنفیوژن پیدا کرنا: مستشرقین کے خیالات مسلمانوں میں فکری الجھنیں پیدا کر دیتے ہیں، جس سے سلف صالحین اور علماء راسخین کے بارے میں اعتماد کم ہوتا جاتا ہے۔ اس استشراقی فکر نے کئی مسلمانوں کو اپنی تہذیب اور تاریخ پر شرمندہ کر دیا، جن میں عالم عرب میں طہٰ حسین اور برصغیر میں سر سید احمد خان جیسے افراد شامل ہیں۔ ان کے فکری مغالطوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ "تاریخ اسلامی” ہے۔
جرح و تعدیل کا نظام:
- قرآنی اصول: ہمارے اسلاف نے تاریخی روایتوں کی تحقیق کے لیے جو نظام بنایا اسے "جرح و تعدیل” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی اصول قرآن کی اس آیت پر ہے:
"اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر نادم ہو۔”
(الحجرات: 49:6) - علماء کی تصانیف: اسلامی تاریخ سے متعلق علماء نے ایسی کتابیں لکھیں جو تاریخی روایتوں سے پیدا ہونے والے اشکالات کا حل فراہم کرتی ہیں، جیسے ابن تیمیہ رح کی منہاج السنہ، ابن العربی رح کی العواصم من القواصم، اور شاہ ولی اللہ دھلوی رح کی ازالة الخفاء عن خلافت الخلفاء۔
تاریخ کا فہم اور اس کے نتائج:
اگر اسلامی تاریخ کو سلف کے نظریے سے ہٹ کر صرف روایات کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ علمی مغالطوں کا باعث بنتی ہے۔ جب ہماری پیمائش کا معیار ہی غلط ہو تو مطالعہ تاریخ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
تاریخ کے مقاصد:
- ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہی دینا۔
- ہمیں اپنی علمی، سیاسی، اور اخلاقی اقدار سے جوڑنا۔
- ہماری اصلاح اور مستقبل کی بنیادیں اپنی جڑوں پر استوار کرنا۔
باطل پیمانوں کا اثر:
جب ہم اپنے غلط پیمانوں کے ساتھ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں تاریخ کے معروف کرداروں کی شخصیت مسخ ہو کر سامنے آتی ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس کے تحت محمود غزنوی ڈاکو، شہاب الدین غوری غاصب، اور عالمگیر منافق دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ذات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔
فکری مغالطے:
یہ مغالطے دو دھاری تلوار کی مانند ہیں: ایک طرف یہ اسلامی تاریخ کا منفی رخ پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے ہی اسلاف پر بد اعتمادی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ یہ "بے لاگ تحقیق” کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن مجددین اسلام پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سیاسی تاریخ کے بارے میں مغالطے:
یہ نظریہ کہ اسلامی سیاسی قوت صرف تیس سال میں پارہ پارہ ہو گئی، تاریخ کے ان تین ادوار کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے جن کی تعریف رسول اللہ ﷺ نے کی ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘ ([23])
(بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں)۔
اصلاح کی ضرورت:
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت سلف صالحین کے نظریے کی پیروی کی جائے، تاکہ ہمیں درست رہنمائی حاصل ہو۔ یہ راستہ ہمیں منزلِ مقصود کی طرف لے جا سکتا ہے۔
سید ابو الحسن علی ندوی رح کا قول:
سید ابو الحسن علی ندوی رح نے لکھا:
"لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب اسلامی دعوت اپنے سب سے بڑے داعی کے ہاتھوں اپنے دور عروج میں کوئی دیر پا اور گہرے نقوش مرتسم نہ کر سکی… تو ہم یہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ ان کے اندر نفوس کے تزکیہ کی صلاحیت ہے۔”
عقل و شعور کا استعمال:
اگر ہم عقلی بنیادوں پر غور کریں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی نظام صرف تیس سال تک قائم رہا؟ جب دنیا میں اسلام کے غلبے کی بات کرنے والے خود یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ امت کی سیاسی عمارت ابتدا ہی میں گر گئی، تو ان کی تحریکوں کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
کتاب اللہ کی گواہی:
"اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وہ تمہارا کہا مانتے رہتے تو تم مشکل میں پڑ جاتے۔ لیکن اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دی ہے…”
(النساء: 83)
ہمیں اپنی تاریخ کے متعلق درست فہم حاصل کرنے کے لیے، سلف صالحین کے راستے پر چلنا چاہیے تاکہ ہم صحیح رہنمائی حاصل کر سکیں۔