لڑکی چھوٹی ہو تو اس کے ولی کو پیغام نکاح بھیجا جائے گا، کنواری لڑکی کی رضا مندی اس کی خاموشی ہی ہے، دوران عدت پیغام نکاح بھیجنا اور کسی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام بھیج دینا حرام ہے
حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
إن النبى صلى الله عليه وسلم الخطب عائشه رضي الله عنها إلى أبى بكر
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا۔“
[بخاري: 5081 ، كتاب النكاح باب تزويج الصغار من الكبار]
جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ :
و إذنها صماتها
”اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے ۔“
➊ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے خاوند نے اسے تیسری طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے رہائش اور خرچہ مقررنہ فرمایا اور کہا:
إذا حللت فآذينني
”جب تو ایام عدت گزار لے تو مجھے اطلاع دینا ۔“
[ابو داود: 2284 ، كتاب الطلاق: باب فى نفقه المبستونة ، مؤطا: 580/2 ، مسلم: 1480 ، نسائي: 75/6 ، بيهقي: 180/7 ، ابن الجارود: 760 ، شرح معاني الآثار: 653]
اگرچہ مذکورہ مسئلے کے لیے اس حدیث سے استدلال تو کیا جاتا ہے لیکن فی الحقیقت اس میں اس مسئلے کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت:
فِيْمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ [البقرة: 235]
کی تفسیر کے متعلق کہا کہ کوئی شخص کسی ایسی عورت سے جو عدت میں ہو کہے کہ میرا نکاح کا ارادہ ہے اور میری خواہش ہے کہ مجھے کوئی نیک بخت عورت میسر آجائے ۔
[بخاري: 5124 ، كتاب النكاح]
اس حدیث پر امام بخاریؒ نے یہ باب قائم کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بیان کہ ”تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم ان (یعنی عدت میں بیٹھنے والی عورتوں سے ) پیغام نکاح کے بارے میں کوئی بات اشارے سے کہو یا ارادہ اپنے دلوں میں ہی چھپا کے رکھو اللہ کو تو علم ہے۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دوران عدت عورت سے اگر اشارے کنائے سے نکاح کے متعلق بات کر لی جائے جس کی صورت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلا دی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور گناہ صرف واضح طور پر پیغام نکاح بھیجنے میں ہے۔
(شوکانیؒ ) خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر عدت گزارنے والی عورت کو صریحا پیغام نکاح بھیجنا حرام ہے۔
[نيل الأوطار: 183/4]
(شافعیؒ) کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ طلاق رجعی کی عدت میں عورت سے پیغام نکاح کے متعلق اشارے سے بھی بات کرے۔
[أيضا]
جو عورت وفات کی عدت گزار رہی ہو اس سے اشارے اور کنائے سے بات کی جا سکتی ہے اور جو عورت طلاق بتہ کی عدت گزار رہی ہو اس سے اشارے کے ساتھ بات کرنے میں اختلاف ہے۔ بعض جواز کے قائل ہیں اور بعض عدم جواز کے۔
[فتح البارى: 179/9 ، تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 200/4]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يخطـب الـرجـل عـلى خطبة أخيه حتى ينكح أو يترك
”کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجے حتی کہ وہ نکاح کر لے یا چھوڑ دے ۔“
[بخاري: 5144 ، كتاب النكاح: باب لا يخطب على خطبة أخية حتى ينكح أو يدع ، نسائي: 73/6 ، أحمد: 462/2 ، حميدي: 1027 ، بيهقي: 180/7 ، شرح معاني الآثار: 4/3]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے:
حتى يترك الخاطب قبله أو ياذن له الخاطب
”تا وقتیکہ اس سے پہلے پیغام نکاح دینے والا خود چھوڑ دے یا پیغام نکاح دینے والا اجازت دے دے ۔“
[بخارى: 5142 – أيضا ، أحمد: 42/2 ، نسائي: 73/6]
(جمہور ، نوویؒ) ان احادیث میں ممانعت حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔
[نيل الأوطار: 80/4 ، فتح البارى: 250/10 ، شرح مسلم: 214/5]