لبرل ازم کے خلاف بیانیہ اور سماجی بگاڑ کا حل
تحریر: شیخ حامد کمال الدین

لبرل ازم کی حقیقت اور موجودہ صورتِ حال

لبرل ازم کو دنیا میں ایک منظم منصوبے کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے، جس کے مختلف پہلو مختلف معاشرتی طبقات میں بانٹ دیے گئے ہیں۔ ہر طبقہ اپنے اپنے حصے کا کام کر رہا ہے، یہاں تک کہ کچھ نیک لوگ بھی اس "تشکیل نو” کے کچھ بے ضرر پہلوؤں میں شریک ہیں۔ لبرل معاشرے میں جنس، آزادی، اور اخلاقیات کے مفاہیم تبدیل کیے جا رہے ہیں، اور اس کا اثر سماج کے ہر پہلو پر گہرا پڑ رہا ہے۔

لبرل معاشرے میں "ریپ” کا بڑھتا ہوا رجحان

لبرل معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں جنس کا بخار عام کیا جاتا ہے، اور خواتین کے ساتھ زیادتی جیسے واقعات پر بات کرنا عام سی بات بن جاتی ہے۔ "ریپ” اور اس جیسے جرائم کی جڑیں لبرل ازم کے گہرے اثرات میں پیوست ہوتی ہیں۔ مغربی معاشروں کے اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ جتنا کوئی معاشرہ لبرل ہوگا، وہاں ریپ کے واقعات کا گراف اتنا ہی بلند ہوگا۔ یہ مسئلہ لبرل معاشرتی ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے، اور اسی لیے وہاں اس پر شور مچانے کا مقصد اصلاح کے بجائے محض خبروں میں رہنا ہوتا ہے۔

عبرت ناک سزا یا سماجی انقلاب؟

ایسے واقعات پر سوشل میڈیا پر شور مچانا یا عبرت ناک سزا کی بات کرنا اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتا جب تک ایک مضبوط بیانیہ تشکیل نہ دیا جائے۔ لبرل ازم غیرت اور شرم و حیا کو ایک خرافاتی تصور قرار دیتا ہے، اس لیے صرف سخت سزائیں تجویز کرنے سے اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔

دینی جماعتوں کے لیے ایک خالی جگہ

پاکستانی معاشرے میں دینی جماعتوں کے پاس ایک بڑی آسامی خالی ہے۔ وہ اس سماجی بگاڑ کے خلاف ایک مضبوط تحریک چلا سکتی ہیں، جیسا کہ ماضی میں قادیانیت کے خلاف چلائی گئی تھی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ایک مضبوط، مؤثر، اور واضح بیانیہ تشکیل دیا جائے، جو عام آدمی کی غیرت اور حمیت کو للکار سکے۔

منبر و محراب کا کردار

اگر اس بیانیے کو منبر و محراب کی طاقت حاصل ہو جائے اور اسے عوام کے دلوں میں ایک نعرۂ مستانہ کے طور پر بٹھا دیا جائے، تو یہ ایک بڑی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ ماضی میں کرپشن کے خلاف چلنے والی تحریکوں سے بھی بڑا بریک تھرو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا کی محدودیت

سوشل میڈیا پر صرف ہیش ٹیگز چلانے سے کوئی زمینی تحریک نہیں اٹھ سکتی، جب تک کہ زمین پر ایک مضبوط اور فعال تحریک موجود نہ ہو جو لبرل ازم کے چیلنجز کا سامنا کرے۔

نتیجہ: ایک فوری اور مؤثر حکمت عملی کی ضرورت

لبرل ازم کی تیزی سے بڑھتی ہوئی یلغار کو روکنے کے لیے ایک فوری اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کی حد سے باہر نکل کر میدانِ عمل میں آنا ہوگا تاکہ اسلامی اقدار کا دفاع کیا جا سکے اور آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے