لاپتہ شوہر کی بیوی کا عدت و نکاح کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

ایسی عورت جس کا خاوند لاپتہ ہو جائے
اس مسئلے میں اگرچہ کوئی صحیح مرفوع روایت نہ ہونے کی وجہ سے بے حد اختلاف کیا گیا ہے لیکن راجح مسلک یہ ہے کہ لاپتہ ہونے کے وقت سے چار سال گزر جانے کے بعد اس کی وفات کا حکم لگایا جائے گا۔ پھر اس کی عورت چار ماہ دس دن متوفی عنھا زوجھا کی عدت گزارے گی ۔ اس کے بعد دوسرا نکاح کر سکے گی۔
➊ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”لا پتہ آدمی کی بیوی چار سال انتظار کرے ، پھر شوہر کے فوت ہونے کی عدت گزارے یعنی چار ماہ دس دن اور اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کر لے ۔“
[سنن سعيد بن منصور: 400/1 ، موطا: كتاب الطلاق: باب عدة التى تفقد زوجها ، بيهقي فى السنن الكبرى: 445/7 ، عبد الرزاق: 88/7]
➋ حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں خلفاء نے لاپتہ شوہر کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ اس کی بیوی چار سال انتظار کرے اور پھر اس کے چار ماہ دس دن بعد یعنی متوفی عنھا زوجھا کی عدت گزار کر شادی کر لے۔
[عبد الرزاق: 85/7]
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”لاپتہ شوہر کی بیوی چار سال انتظار کرے۔“
[سعيد بن منصور: 1756 ، بيهقي: 445/7]
➍ حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ ”جب آدمی دوران جنگ لاپتہ ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال انتظار کرے اور جب جنگ کے علاوہ کہیں اور لاپتہ ہو جائے تو چار سال انتظار کرے۔“
[عبد الرزاق: 89/7]
(ابن حجرؒ) انہوں نے علما کی اکثریت کا یہی موقف نقل کیا ہے۔
[فتح البارى: 431/9]
جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لا پتہ شوہر کی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی ہی رہے گی جب تک کہ گمشدہ کے متعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہو جائے ۔“ وہ ضعیف ومن گھڑت ہے۔
[دارقطني: 312/3 ، العلل لابن أبى حاتم: 432/1 ، التعليق على سبل السلام للشيخ صبحي حلاق: 317/6]
(مالکؒ ، شافعیؒ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے پر عمل کے قائل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ بھی اسی کے قائل ہیں ۔
(ابو حنیفہؒ) لاپتہ شوہر کی بیوی اس کی زوجیت سے نہیں نکلے گی۔ تا وقتیکہ اس کی خبرِ وفات کی صحت یا ثبوتِ طلاق یا خاوند کے مرتد ہو جانے کا ثبوت نہ مل جائے۔ اور احناف کے نزدیک موت سے مراد طبعی موت کی مقدار ہے جس میں پھر انہوں نے اختلاف کیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ مدت ساٹھ (60) سال ہے ، بعض کے خیال میں ستر (70) سال ، اسی طرح نوے (90) سال ، ایک سو بیس (120) سال ، اور ایک سو پچاس (150) سال سے دو سو (200) برس تک کا قول بھی بیان کیا جاتا ہے۔
[المهذب: 146/2 ، كشاف القناع: 487/5 ، الشرح الصغير: 693/2 ، غاية المنتهي: 212/3 ، المغنى: 488/7 ، الدر المختار: 160/3 ، مغني المحتاج: 397/3 ، الروضة الندية: 116/2]
علاوہ ازیں ایک قول یہ بھی ہے کہ لا پتہ شخص نے اگر بیوی کے لیے اخراجات و ضروری سامان چھوڑا ہے تو اسے حاضر ہی سمجھا جائے گا ورنہ حاکم وقت یا عدالت (عورت کے مطالبے پر) نکاح فسخ کرا دے گی۔
(شوکانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[السيل الجرار: 257/2]
لیکن محققین نے پہلے قول کو ہی ترجیح دی ہے (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کو ) ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1