ہاکنگ کا نظریہ خدا کے بارے میں
ہاکنگ کا نظریہ
اسٹیفن ہاکنگ نے ایک انٹرویو میں کہا:
"میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ خدا وجود نہیں رکھتا۔ جب بھی انسانی ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم اس جہان میں کیوں ہیں؟ تو اس سوال کی توجیہہ کا نام خدا رکھا جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ توجیہہ طبعی قوانین پر مشتمل ہے، نہ کہ کسی ذاتی تعلق کے حامل وجود پر۔ میرا خدا ایک غیر شخصی خدا ہے۔”
[اسٹیفن ہاکنگ]
◈ ہاکنگ کے مطابق، وہ قوانین جن کے تحت کائنات بنی، ارتقا پذیر ہوئی، اور پھیل رہی ہے، وہی خدا کہلاتے ہیں۔
◈ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ خدا کوئی ذات نہیں بلکہ ایک "قوتِ محرکہ” (Motive Force) یا علت و معلول (Cause and Effect) کا سلسلہ ہے، یا یہ کہ قوانینِ فطرت ہی خدا ہیں۔
قوانینِ فطرت اور تخلیق کا سوال
سوال: کیا قوانینِ فطرت نظام بنا سکتے ہیں؟
◈ ہاکنگ کے دعوے کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تحقیق کریں:
◈ کیا طبعی قوانین اپنے طور پر کوئی نظام بنا سکتے ہیں؟
◈ کیا بے جان اشیاء سے قوانینِ فطرت جاندار تخلیق کرسکتے ہیں؟
نینسی پیئرسی (Nancy Pearcey) کا جواب
◈ نینسی پیئرسی اپنی کتاب Total Truth میں کہتی ہیں:
"قوانینِ فطرت معلومات تخلیق نہیں کرتے۔ یہ قوانین صرف ان واقعات کو بیان کرتے ہیں جو باقاعدہ ہوں اور دہرائے جا سکیں۔”
◈ مثلاً، اگر آپ پنسل چھوڑیں گے تو وہ گرے گی، اور اگر آپ کاغذ جلائیں گے تو وہ خاکستر ہوگا۔
◈ لیکن قوانینِ فطرت کسی پیچیدہ معلومات جیسے جینیاتی کوڈ (DNA) کو تخلیق نہیں کرسکتے کیونکہ وہ صرف باقاعدہ اور دہرائے جانے والے نمونوں تک محدود ہیں۔
◈ نینسی مزید وضاحت کرتی ہیں کہ کسی پیغام یا انفارمیشن میں الفاظ کی ترتیب مخصوص اصول کے تابع نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک شعوری عمل کا نتیجہ ہوتی ہے:
– "ABC ABC ABC” ایک دہرائی جانے والی ترتیب ہے، جس میں معلومات کم ہوتی ہے۔
– <"1492 میں، کولمبس نے بحیرہ کا سفر کیا” ایک بے ترتیب اور وسیع معلومات فراہم کرنے والا پیغام ہے۔
◈ جینیاتی کوڈ (DNA) اسی بے ترتیب اور پیچیدہ ترتیب پر مشتمل ہوتا ہے، جو قوانینِ فطرت کے ذریعے ممکن نہیں۔
سائنس اور شعور کی ضرورت
◈ انفارمیشن سائنٹسٹ ہنری کواسٹلر (Henry Quastler) کہتے ہیں:
"نئی معلومات شعوری کوشش کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔”
◈ ماہرِ طبعیات ہیوبرٹ یوکی (Hubert Yockey) اپنی کتاب Information Theory, Evolution, and the Origin of Life میں لکھتے ہیں:
"ریاضی کے اصولوں کے تحت یہ ناممکن ہے کہ قوانینِ فطرت ڈی این اے جیسی پیچیدہ چیز تخلیق کر سکیں، کیونکہ ان قوانین میں اتنی معلومات شامل ہی نہیں ہوتی۔”
خدا کے تخلیقی عمل کا اسلامی تصور
خدا کی تخلیق میں تدریج اور قوانین
◈ ہاکنگ اور دیگر سائنسدانوں کو زیادہ تر مسئلہ اس تصورِ خدا سے ہے جو اسے ایک جادوگر کی طرح پیش کرتا ہے۔
◈ لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق، خدا کا عمل تدریجی اور منظم ہے۔
◈ قرآن مجید میں خدا کی تخلیق کے عمل کو چھ دن (یا ادوار) میں بیان کیا گیا ہے:
"کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا… پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا… پھر دو دن میں سات آسمان بنائے۔”
(سورہ فصلت: 9-12)
تخلیق کا تدریجی عمل
◈ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تدریج کا اصول واضح ہے:
➊ کائنات کے تخلیقی مراحل (کن → فیکون)
– "کن” جادوئی لفظ نہیں بلکہ ایک ایسا امر ہے جس سے تخلیق کی شروعات ہوتی ہے اور کائنات تدریج کے ساتھ اپنی غایت تک پہنچتی ہے۔
➋ روحانی اور مادی دنیا میں خدا کا نظام
– فرشتے مخصوص ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں، جیسے جبریل وحی لاتے ہیں، میکائل مادّی طاقتوں کو کنٹرول کرتے ہیں، اور عزرائیل موت کا انتظام کرتے ہیں۔
خلاصہ
◈ قوانینِ فطرت بذات خود کوئی نظام یا جاندار تخلیق نہیں کرسکتے کیونکہ ان میں معلومات کا جزو بہت کم ہوتا ہے۔
◈ جینیاتی کوڈ جیسی پیچیدہ تخلیقات کے لیے ایک شعور (Conscious Mind) ضروری ہے۔
◈ اسلامی تصورِ خدا کے مطابق، خدا کا عمل منظم اور تدریجی ہے، جو کائنات کے پیچیدہ نظام کی تخلیق کی وضاحت کرتا ہے۔