قسطوں پر گاڑیاں اور فرنیچر خریدنے کا حکم
فرنیچر اور گاڑیاں اگر بائع کے پاس ہو اور خریدار بعینہ انھیں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ان آیات:
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا» [البقرة: 275]
’’حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔“
نیز فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک
قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو۔“
کے عموم میں داخل ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن اگر وہ سامان کے طلبگار کے ساتھ بیع عینہ کا معاملہ کر لیتا ہے، پھر اسے خرید لاتا ہے اور اس کو فروخت کر دیتا ہے تو یہ جائز نہیں کیونکہ یہ سود خوری کے لیے حیلہ ہے، اس معاملے کا مطلب ہے کہ اس نے اس کو قیمت، سود اور سودی اضافے کے ساتھ قرض دی کیونکہ تاجر نے وہ چیز مثلا سو (100) میں خریدی اور اس کو ایک سو بیس (120) میں بیچ دی، اگر وہ بائع کے پاس ہوتی اور اس کی ملکیت میں ہوتی اور خریدار اسے خرید لیتا، وہ بعینہ اس چیز کا طلبگار نہیں تھا بلکہ وہ اسے بیچنا اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، یہ مسئلہ تورق ہے جس میں علما کے درمیان اختلاف ہے، کچھ نے اس کی اجازت دی ہے اور کچھ نے اس سے منع کیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی منع کرنے والوں میں شامل ہیں، احتیاط اسی میں ہے کہ انسان یہ کام نہ کرے، خصوصاً جب تجارتی مقصد کے لیے ہو، کیونکہ انسان بھی نفع کماتا ہے تو کبھی نقصان اٹھاتا ہے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ وہ مہلت کی خاطر قیمت زیادہ دے کر نقصان ہی اٹھاتا ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 18/243]