باب القسامه
رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بَشِيرِ بَنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةً، قَالَ يَحْيَى: وَحَسِبْتُ قَالَ: وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَا: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَبِّصِةُ بْنُ مَسْعُودٍ بْنِ زَيْدٍ، حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِذَا مُحَبِّصَةٌ يَجِدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ) قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ مَا هُوَ وَحُوَيْصِةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ مَ: ( (كَبَرُ كبر في السِّنِّ)، (فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ، وَتَكَلَّمَ مَعَهُمَا فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ ) مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ) أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُونَ صَاحِبَكُمْ أَوْ قَاتِلَكُمْ؟ قَالُوا: وَكَيْفَ نَخْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدُ، قَالَ: فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا۔ قَالُوا وَكَيْفَ نَقْبَلُ إِيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ فَلَمَّا رَأَى – ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَعْطَى عَقْلَهُ) هَذِهِ رِوَايَةٌ اللَّيْثِ، عَنْ يَحْيَى، عِنْدَ مُسْلِمٍ
قسموں کا بیان
یحیی بن سعید نے بشیر بن یسار سے روایت کیا اس نے سہل بن ابی حثمہ سے روایت کیا، بیٹی نے کہا میرا خیال ہے اس نے کہا رافع بن خدیج سے روایت کیا دونوں عبد الله بن سهل بن زید اور حثمہ بن مسعود بن زید نکلے یہاں تک کہ جب دونوں خیبر میں پہنچے تو ایک دوسرے سے الگ ہو گئے پھر جب محیصہ عبداللہ بن سہل کو دیکھتا ہے وہ مقتول پڑا ہے تو اس نے اسے دفن کر دیا پھر وہ حریصہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تینوں میں سے سب سے چھوٹا عبدالرحمن تھا اگر اس نے ان دونوں ساتھیوں سے پہلے بات کرنا چاہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر میں جو بڑا ہے اسے بات کرنے دیں وہ خاموش ہو گیا اور اس کے دونوں ساتھیوں نے آپ سے بات کی اس نے بھی ان دونوں کے ساتھ مل کر بات کی انہوں نے عبداللہ بن سہل کے قتل کا تذکرہ کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم پچاس مرتبہ قسم کھاتے ہو تو بائیں صورت تم اپنے ساتھی کے مستحق قرار پاؤ گے یا اپنے قاتل پہ قابو پا سکو گے؟ انہوں نے کہا ہم حلف کیسے اٹھائیں جب کہ ہم نے دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تو پھر یہودی پچاس مرتبہ قسم کھا کر بری ہو جائیں گئے انہوں نے کہا ہم بھلا کافر قوم کی قسم کیسے قبول کریں گے؟ جب رسول اللہ کی یہ صورت حال دیکھی تو اس کی دیت ادا کر دی ۔ یہ لیث کی روایت ہے یحیی سے مسلم کے ہاں۔
تحقیق و تخریج:
[بخاري: 6898٬6142٬3173، مسلم: 1669]
وَفِي رِوَايَةِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ
يَحْيَى بْنِ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةً وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ مِنْ غَيْرِ شَكٍّ وَفِيهِ: فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَ: (يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَيُدْفَعُ بِرُمَتِهِ) قَالُوا: أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدُهُ، كَيْفَ نَحْلِفُ؟ قَالَ: ( (فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ)) قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَوْمٌ كُفَّارٌ الْحَدِيثَ .
حماد بن زید یحیی بن بشیر سے اور وہ سہل بن ابى حثمہ اور رافع بن خدیج سے بلا شک وشبہ روایت کرتے ہیں اس میں ہے کہ ان دونوں نے اپنے ساتھی کے بارے میں بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم پچاس قسمیں کھاؤ گے ان کے آدمی کے خلاف تو اس کی رسی سپرد کردی جائے گی انہوں نے کہا ایک ایسا معاملہ ہے کہ ہم نے دیکھا نہیں تو حلف کیسے اٹھائیں؟ فرمایا ” تو یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہیں الگ تھلگ کر دیں انہوں نے کہا یا رسول اللہ یہ کافر قوم ہے۔
تحقيق وتخریج:
[بخاري 2143، 6143 ، مسلم: 1669]
وَفِي رِوَايَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عِنْدَ مُسْلِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَيِّصِةَ ابْنَ مَسْعُودِ بنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِينِ [ثُمَّ] مِنْ بَنِي حَارِثَةَ، جَرَجًا إِلَى خَيْرَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ مَا ، وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلح، وَأَهْلُهَا يَهُودُ وَفِيهِ: فَمَشَى أَخُو الْمَقْتُولِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَمُحَبِّصِةٌ وَحُوَيْصِةٌ فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ اللهِ شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَحَيْثُ قُتِلَ، قَالَ: فَزَعَمَ بشَيْرٌ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَمَّنْ أَدْرَكَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ مَا أَنَّهُ قَالَ لَهُمْ: تَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ؟ )) قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ، مَا شَهِدْنَا وَلَا حَضَرُنَا فَزَعَمَ أَنَّهُ قَالَ: ( (فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا)) وَفِيهِ: فَزَعَمَ بِشَيْرٌ: ( (أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ مَا عَقَلَهُ مِنْ عِنْدِهِ))
مسلم شریف میں سلیمان بن بلال سے مروی ہے کہ اس نے یحیی بن سعید سے اور اس نے بشیر بن یسار سے روایت کیا کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن یزید دونوں انصاری تھے اور پھر دونوں بنو حارثہ میں سے تھے وہ دونوں رسول اللہ صلی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خبیر گئے یہ صلح کے دن تھے اس کے باشندے یہودی تھے اس میں ہے کہ مقتول کا بھائی۔ عبدالرحمن بن سہل محیصہ اور حریصہ چلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو عبد اللہ کے بارے میں بتایا کہ وہ قتل ہو گیا، راوی نے کہا، بشیر کا خیال ہے کہ وہ بیان کرتا ہے ان سے جنہوں نے پایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو آپ نے ان سے کہا: ”تم پچاس قسمیں اٹھاؤ گے اور مستحق ہو جاؤ گے اپنے قاتل کے یا صاحب کے؟ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ہم تو نہ موجود تھے اور نہ حاضر تھے اس کا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہیں الگ کر دیں گے بشیر کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے دیت دے دی۔
تحقيق و تخریج:
[مسلم: 1669]
وَكَذَلِكَ فِي رِوَايَةِ هُشَيْمٍ عَنْ يَحْيَى: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ
اسی طرح ہشیم نےیحیی سے روایت کیا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ادا کر دیا تھا۔ “
تحقيق وتخريج:
[مسلم: 1669]
وَكَذَا فِي رِوَايَةِ بُشَيْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ عَنْ يَحْيَى: فَعَقَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ عَلَ مِنْ عِنْدِهِ
بشیر بن مفصل کی روات میں ہے اس نے یحیی سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس سے دیت ادا کردی۔
تحقیق و تخریج:
[مسلم: 1669]
وَفِي رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ بُشَيْرٍ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثَمَةَ: فَكَرِهَ رَسُولُ اللهِ عَلى أَن يُبْطِلَ دَمَهُ، فَوَدَاهُ بِمِائَةٍ مِنْ إِبْلِ الصَّدَقَةِ
سعيد بن عبید کی روایت میں ہے بشیر بن یسار سے روایت کیا اس نے سہل بن حمہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا کہ اس کا خون رائیگاں جانے دیا جائے آپ نے اس کی دیت صدقے کے سو اونٹوں سے ادا کی۔
تحقیق و تخریج:
[مسلم: 1669]
قَوْمِهِ الْحَدِيثَ وَفِيهِ: فَأَتَى يَهُودَ فَقَالَ: أَنتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ وَفِيهِ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ الله: إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ ، وَإِمَّا أَنْ تُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ مَن فِي ذَلِكَ فَكَتَبُوا: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَا لِحُوَيْصِةَ، وَمُحَبِّصِةً، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُونَ دَمَ احِبِكُمْ؟ قَالُوا: لَا وَاللَّهَ، قَالَ: فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ قَالُوا: لَيَسُوا مُسْلِمِينَ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللهِ مَا مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ مِائَةَ نَاقَةٍ حَتَّى أَدْخَلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ قَالَ سَهُلْ: فَلَقَدْ رَكَضَتَنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ
مالک کی ایک روایت میں ہے وہ ابولیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عبد الرحمن بن سہل نے سہل بن ابی خثمہ سے روایت کیا کہ اسے اس کے قوم کے بڑوں نے بتایا اس میں ہے کہ آپ کے پاس یہود کو لایا گیا آپ نے فرمایا: ”بخدا تم نے اسے قتل کیا ہے انہوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا اس میں ہے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا یا تم اپنے ساتھی کی دیت دو یا پھر لڑائی کے
لیے تیار ہو جاؤ ان کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا انہوں نے لکھا اللہ کی قسم! ہم نے قتل نہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ تمحیصہ اور عبدالرحمن سے کہا کیا تم قسم کھاتے ہو اور اپنے ساتھی کے خون کا استحقاق رکھتے ہو؟ انہوں نے نہیں اللہ کی قسم ! آپ نے فرمایا یہودی قسم کھا لیں گے انہوں نے کہا وہ تو مسلمان نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنی
طرف سے ادا کر دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے سو اونٹ بھیجے اور وہ ان کے گھر پہنچا دیئے سھل نے کہا کہ
ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے ٹانگ ماری تھی۔
تحقيق و تخریج:
[مسلم: 1669]
فوائد:
➊ فریقین کا ثبوت و انکار پر قسم یا شہادت دینا قسامت کے زمرہ میں شامل ہے۔
➋ کسی جگہ بستی، محملہ گلی یا قبیلہ کے پاس مقتول پایا گیا مقتول کے قاتل کا یقینی علم نہ ہونے کی وجہ سے بہتی گلی قبیلہ محلہ وغیرہ کے پچاس افراد سے قسمیں لی جائیں گی۔ وہ مل کر قسم دیں گے کہ انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس کے قاتل کو جانتے ہیں۔ اس صورت میں وہ بری ہو جائیں گے۔ قسمیں مرد حضرات سے لی جائیں گی اور ان سے لی جائیں گی جن کا انتخاب مدعی نے کیا خواہ وہ مشتبہ افراد ہوں یا نہ ہوں۔
➌ مقتول کے ورثاء قسمیں اٹھائیں گے کہ یہی ہمارے مقتول کے قاتل ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں
① ثبوت و گواہ پیش کریں گے ② قسم اٹھائیں گے۔ اگر مقتول کے ورثاء دونوں چیزیں پیش نہ کریں تو مخالف افراد پچاس قسمیں دیں گے اور وہ بری ہو جائیں گے۔ ورنہ ان پر دیت لازم آئے گی۔ خون ثابت ہو جائے تو قصاص لازم آئے گا۔ باتوں باتوں میں کسی کا خون رائیگاں قرار نہیں دینا چاہیے۔
➍ یہ واحد قضیہ ہے جس میں پچاس قسمیں اٹھائی جاتی ہیں۔ دیت کو کوئی قبول نہ کرے تو مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی جاسکتی ہے۔
➎ کم تجربہ کار کم عمر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ تجربہ کار اور عمر رسیدہ کو گفتگو کرنے کا موقع دے بلکہ یوں کہیں کہ عمر رسیدہ تجربہ کار شخص کی موجودگی میں کم تجربہ کار اور کم عمر کو خاموش رہنا چاہیے۔ معاملات و احکامات میں بڑے کو پہلے بولنے کا موقعہ دیا جائے بعد میں خود بات کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باتوں باتوں اور اشاروں اشاروں میں اپنے پیروکاروں کو رہنے سہنے کے آداب سکھائے۔
رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بَشِيرِ بَنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةً، قَالَ يَحْيَى: وَحَسِبْتُ قَالَ: وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَا: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَبِّصِةُ بْنُ مَسْعُودٍ بْنِ زَيْدٍ، حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِذَا مُحَبِّصَةٌ يَجِدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ) قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ مَا هُوَ وَحُوَيْصِةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ مَ: ( (كَبَرُ كبر في السِّنِّ)، (فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ، وَتَكَلَّمَ مَعَهُمَا فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ ) مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ) أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُونَ صَاحِبَكُمْ أَوْ قَاتِلَكُمْ؟ قَالُوا: وَكَيْفَ نَخْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدُ، قَالَ: فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا۔ قَالُوا وَكَيْفَ نَقْبَلُ إِيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ فَلَمَّا رَأَى – ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَعْطَى عَقْلَهُ) هَذِهِ رِوَايَةٌ اللَّيْثِ، عَنْ يَحْيَى، عِنْدَ مُسْلِمٍ
قسموں کا بیان
یحیی بن سعید نے بشیر بن یسار سے روایت کیا اس نے سہل بن ابی حثمہ سے روایت کیا، بیٹی نے کہا میرا خیال ہے اس نے کہا رافع بن خدیج سے روایت کیا دونوں عبد الله بن سهل بن زید اور حثمہ بن مسعود بن زید نکلے یہاں تک کہ جب دونوں خیبر میں پہنچے تو ایک دوسرے سے الگ ہو گئے پھر جب محیصہ عبداللہ بن سہل کو دیکھتا ہے وہ مقتول پڑا ہے تو اس نے اسے دفن کر دیا پھر وہ حریصہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تینوں میں سے سب سے چھوٹا عبدالرحمن تھا اگر اس نے ان دونوں ساتھیوں سے پہلے بات کرنا چاہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر میں جو بڑا ہے اسے بات کرنے دیں وہ خاموش ہو گیا اور اس کے دونوں ساتھیوں نے آپ سے بات کی اس نے بھی ان دونوں کے ساتھ مل کر بات کی انہوں نے عبداللہ بن سہل کے قتل کا تذکرہ کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم پچاس مرتبہ قسم کھاتے ہو تو بائیں صورت تم اپنے ساتھی کے مستحق قرار پاؤ گے یا اپنے قاتل پہ قابو پا سکو گے؟ انہوں نے کہا ہم حلف کیسے اٹھائیں جب کہ ہم نے دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تو پھر یہودی پچاس مرتبہ قسم کھا کر بری ہو جائیں گئے انہوں نے کہا ہم بھلا کافر قوم کی قسم کیسے قبول کریں گے؟ جب رسول اللہ کی یہ صورت حال دیکھی تو اس کی دیت ادا کر دی ۔ یہ لیث کی روایت ہے یحیی سے مسلم کے ہاں۔
تحقیق و تخریج:
[بخاري: 6898٬6142٬3173، مسلم: 1669]
وَفِي رِوَايَةِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ
يَحْيَى بْنِ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةً وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ مِنْ غَيْرِ شَكٍّ وَفِيهِ: فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَ: (يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَيُدْفَعُ بِرُمَتِهِ) قَالُوا: أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدُهُ، كَيْفَ نَحْلِفُ؟ قَالَ: ( (فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ)) قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَوْمٌ كُفَّارٌ الْحَدِيثَ .
حماد بن زید یحیی بن بشیر سے اور وہ سہل بن ابى حثمہ اور رافع بن خدیج سے بلا شک وشبہ روایت کرتے ہیں اس میں ہے کہ ان دونوں نے اپنے ساتھی کے بارے میں بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم پچاس قسمیں کھاؤ گے ان کے آدمی کے خلاف تو اس کی رسی سپرد کردی جائے گی انہوں نے کہا ایک ایسا معاملہ ہے کہ ہم نے دیکھا نہیں تو حلف کیسے اٹھائیں؟ فرمایا ” تو یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہیں الگ تھلگ کر دیں انہوں نے کہا یا رسول اللہ یہ کافر قوم ہے۔
تحقيق وتخریج:
[بخاري 2143، 6143 ، مسلم: 1669]
وَفِي رِوَايَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عِنْدَ مُسْلِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَيِّصِةَ ابْنَ مَسْعُودِ بنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِينِ [ثُمَّ] مِنْ بَنِي حَارِثَةَ، جَرَجًا إِلَى خَيْرَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ مَا ، وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلح، وَأَهْلُهَا يَهُودُ وَفِيهِ: فَمَشَى أَخُو الْمَقْتُولِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَمُحَبِّصِةٌ وَحُوَيْصِةٌ فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ اللهِ شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَحَيْثُ قُتِلَ، قَالَ: فَزَعَمَ بشَيْرٌ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَمَّنْ أَدْرَكَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ مَا أَنَّهُ قَالَ لَهُمْ: تَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ؟ )) قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ، مَا شَهِدْنَا وَلَا حَضَرُنَا فَزَعَمَ أَنَّهُ قَالَ: ( (فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا)) وَفِيهِ: فَزَعَمَ بِشَيْرٌ: ( (أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ مَا عَقَلَهُ مِنْ عِنْدِهِ))
مسلم شریف میں سلیمان بن بلال سے مروی ہے کہ اس نے یحیی بن سعید سے اور اس نے بشیر بن یسار سے روایت کیا کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن یزید دونوں انصاری تھے اور پھر دونوں بنو حارثہ میں سے تھے وہ دونوں رسول اللہ صلی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خبیر گئے یہ صلح کے دن تھے اس کے باشندے یہودی تھے اس میں ہے کہ مقتول کا بھائی۔ عبدالرحمن بن سہل محیصہ اور حریصہ چلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو عبد اللہ کے بارے میں بتایا کہ وہ قتل ہو گیا، راوی نے کہا، بشیر کا خیال ہے کہ وہ بیان کرتا ہے ان سے جنہوں نے پایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو آپ نے ان سے کہا: ”تم پچاس قسمیں اٹھاؤ گے اور مستحق ہو جاؤ گے اپنے قاتل کے یا صاحب کے؟ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ہم تو نہ موجود تھے اور نہ حاضر تھے اس کا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہیں الگ کر دیں گے بشیر کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے دیت دے دی۔
تحقيق و تخریج:
[مسلم: 1669]
وَكَذَلِكَ فِي رِوَايَةِ هُشَيْمٍ عَنْ يَحْيَى: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ
اسی طرح ہشیم نےیحیی سے روایت کیا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ادا کر دیا تھا۔ “
تحقيق وتخريج:
[مسلم: 1669]
وَكَذَا فِي رِوَايَةِ بُشَيْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ عَنْ يَحْيَى: فَعَقَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ عَلَ مِنْ عِنْدِهِ
بشیر بن مفصل کی روات میں ہے اس نے یحیی سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس سے دیت ادا کردی۔
تحقیق و تخریج:
[مسلم: 1669]
وَفِي رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ بُشَيْرٍ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثَمَةَ: فَكَرِهَ رَسُولُ اللهِ عَلى أَن يُبْطِلَ دَمَهُ، فَوَدَاهُ بِمِائَةٍ مِنْ إِبْلِ الصَّدَقَةِ
سعيد بن عبید کی روایت میں ہے بشیر بن یسار سے روایت کیا اس نے سہل بن حمہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا کہ اس کا خون رائیگاں جانے دیا جائے آپ نے اس کی دیت صدقے کے سو اونٹوں سے ادا کی۔
تحقیق و تخریج:
[مسلم: 1669]
قَوْمِهِ الْحَدِيثَ وَفِيهِ: فَأَتَى يَهُودَ فَقَالَ: أَنتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ وَفِيهِ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ الله: إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ ، وَإِمَّا أَنْ تُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ مَن فِي ذَلِكَ فَكَتَبُوا: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَا لِحُوَيْصِةَ، وَمُحَبِّصِةً، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُونَ دَمَ احِبِكُمْ؟ قَالُوا: لَا وَاللَّهَ، قَالَ: فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ قَالُوا: لَيَسُوا مُسْلِمِينَ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللهِ مَا مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ مِائَةَ نَاقَةٍ حَتَّى أَدْخَلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ قَالَ سَهُلْ: فَلَقَدْ رَكَضَتَنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ
مالک کی ایک روایت میں ہے وہ ابولیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عبد الرحمن بن سہل نے سہل بن ابی خثمہ سے روایت کیا کہ اسے اس کے قوم کے بڑوں نے بتایا اس میں ہے کہ آپ کے پاس یہود کو لایا گیا آپ نے فرمایا: ”بخدا تم نے اسے قتل کیا ہے انہوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا اس میں ہے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا یا تم اپنے ساتھی کی دیت دو یا پھر لڑائی کے
لیے تیار ہو جاؤ ان کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا انہوں نے لکھا اللہ کی قسم! ہم نے قتل نہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ تمحیصہ اور عبدالرحمن سے کہا کیا تم قسم کھاتے ہو اور اپنے ساتھی کے خون کا استحقاق رکھتے ہو؟ انہوں نے نہیں اللہ کی قسم ! آپ نے فرمایا یہودی قسم کھا لیں گے انہوں نے کہا وہ تو مسلمان نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنی
طرف سے ادا کر دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے سو اونٹ بھیجے اور وہ ان کے گھر پہنچا دیئے سھل نے کہا کہ
ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے ٹانگ ماری تھی۔
تحقيق و تخریج:
[مسلم: 1669]
فوائد:
➊ فریقین کا ثبوت و انکار پر قسم یا شہادت دینا قسامت کے زمرہ میں شامل ہے۔
➋ کسی جگہ بستی، محملہ گلی یا قبیلہ کے پاس مقتول پایا گیا مقتول کے قاتل کا یقینی علم نہ ہونے کی وجہ سے بہتی گلی قبیلہ محلہ وغیرہ کے پچاس افراد سے قسمیں لی جائیں گی۔ وہ مل کر قسم دیں گے کہ انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس کے قاتل کو جانتے ہیں۔ اس صورت میں وہ بری ہو جائیں گے۔ قسمیں مرد حضرات سے لی جائیں گی اور ان سے لی جائیں گی جن کا انتخاب مدعی نے کیا خواہ وہ مشتبہ افراد ہوں یا نہ ہوں۔
➌ مقتول کے ورثاء قسمیں اٹھائیں گے کہ یہی ہمارے مقتول کے قاتل ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں
① ثبوت و گواہ پیش کریں گے ② قسم اٹھائیں گے۔ اگر مقتول کے ورثاء دونوں چیزیں پیش نہ کریں تو مخالف افراد پچاس قسمیں دیں گے اور وہ بری ہو جائیں گے۔ ورنہ ان پر دیت لازم آئے گی۔ خون ثابت ہو جائے تو قصاص لازم آئے گا۔ باتوں باتوں میں کسی کا خون رائیگاں قرار نہیں دینا چاہیے۔
➍ یہ واحد قضیہ ہے جس میں پچاس قسمیں اٹھائی جاتی ہیں۔ دیت کو کوئی قبول نہ کرے تو مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی جاسکتی ہے۔
➎ کم تجربہ کار کم عمر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ تجربہ کار اور عمر رسیدہ کو گفتگو کرنے کا موقع دے بلکہ یوں کہیں کہ عمر رسیدہ تجربہ کار شخص کی موجودگی میں کم تجربہ کار اور کم عمر کو خاموش رہنا چاہیے۔ معاملات و احکامات میں بڑے کو پہلے بولنے کا موقعہ دیا جائے بعد میں خود بات کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باتوں باتوں اور اشاروں اشاروں میں اپنے پیروکاروں کو رہنے سہنے کے آداب سکھائے۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]