قریش کی پیشکش کا واقعہ اور اس کی حقیقت
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

قریش کی پیشکش عماره لے لو محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے دو
جب قریش کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوئی کہ ابوطالب نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت سے باز آئیں گے اور نہ وہ ان کے حوالہ کریں گے اور وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ اس معاملہ میں ان سے مکمل طور قطع تعلق کر لیں اور دشمنی پر آمادہ ہیں۔ تو وہ عمارہ بن ولید بن مغیرہ کو لے کر ان کے پاس آئے اور کہا ابو طالب یہ عمارہ بن الولید ہے۔ قریش کا سب سے زیادہ تنومند، وجیہ اور خوبصورت جوان ہے، اس کو تم لے لو اس کی عقل اور طاقت سے فائدہ اٹھاؤ اس کو اپنا بیٹا بنا لو۔ ہم یہ تم کو دیتے ہیں اور تم اپنے بھتیجے کو جس نے تمہارے اور تمہارے آباء کے مذہب کی توہین کی ہے اور ہمارے قومی شیرازے کو بکھیر دیا ہے اور ان کو احمق ٹھہرایا ہے، ہمارے حوالے کر دو تا کہ ہم اسے قتل کر دیں ایک آدمی کے بدلے میں آدمی موجود ہے۔
ابوطالب نے کہا اللہ کی قسم ! یہ برا سودا ہے جوتم مجھ سے کرنا چاہتے ہو، تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے تمہاری خاطر لیے پھروں اور اپنے بیٹے کو تمہارے حوالے کر دوں تا کہ تم اسے قتل کر دو ایسا ہرگہ نہ ہوگا۔ مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف نے کہا اے ابو طالب تمہاری قوم نے تمہارے مقابلے میں انصاف کیا ہے اور اس بات کی کوشش کی ہے کہ تم کو اس حالت سے جسے خود تم برا سمجھتے ہو اس طرح نکال لیں مگر میرا خیال ہے کہ تم ان کی کسی بات کو بھی نہیں ماننا چاہتے۔ ابوطالب نے اس سے کہا انہوں نے ہرگز میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے؟ بلکہ تم میرا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کر چکے ہو اور ان سب کو میرے خلاف لے آئے ہواب جو دل چاہے کرو۔

تحقیق الحدیث :

ابن اسحاق نے اس کی کوئی سند بیان نہیں کی تو بے سند کوئی واقعہ قابل قبول نہیں ہوتا۔ سیرت ابن هشام مع الروض الانف جلد 2 صفحہ (8) اس واقعہ کو صفی الرحمن مبارک پوری نے اپنی الرحیق المختوم میں بھی ابن هشام کے حوالے سے نقل کیا ہے جبکہ یہ صحیح نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے