مؤرخین و اہل سیر لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان صفا کے چند روز بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دعوت کا سامان کرو، تمام خاندان عبدالمطلب اور دیگر رشتہ داروں کو مدعو کیا گیا۔ تقریباً چالیس افراد نے دعوت میں شرکت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا : میں تم لوگوں کے لئے وہ چیز لے کر آیا ہوں جو تمہارے لئے دین و دنیا دونوں کی کفیل ہو، میں نہیں جانتا کہ عرب بھر میں کوئی شخص اپنی قوم کے لئے ایسا نادر تحفہ لےکر آیا ہو۔ کون ہے جو اس بار گراں کے اٹھانے میں میرا ساتھ دے۔ اور میری رفاقت اختیار کرے۔
تمام مجلس میں سناٹا تھا۔ دفعۃًحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر کہا، گو مجھ کو آشوب چشم ہے، گو میری ٹانگیں پتلی ہیں اور گو میں سب سے نو عمر ہوں۔ تاہم میں آپ کا ساتھ دوں گا۔
قریش کے لئے یہ ایک حیرت انگیز منظر تھا کہ وہ لوگ جن میں سے ایک سنیر ده سالہ نو جوان ہے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ حاضرین کو بےساختہ ہنسی آ گئی۔ لیکن آگے چل کر زمانہ نے بتا دیا کہ یہ سراپا سچ تھا۔
[سيرت النبى ص 210 ج1، تاريخ مسلمانان عالم ص 160 ج2 ]
تحقیق الحدیث :
مولانا شبلی نے بھی اس روایت کو سیرت النبی جلد اول میں درج کیا ہے۔ جو طبری کی تاریخ اور تفسیر سے ماخوذ ہے، لیکن سید سلیمان ندوی نے استاد کی تحریر کردہ روایت کو ضعیف کہا ہے اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس کے راویوں میں عبد الغفار بن قاسم شیعی متروک ہے۔ دوسرا بدمذہب ہے جس کا نام منہال بن عمرو ہے۔
منھال بن عمرو کا تعارف
اس روایت کا ایک راوی منہال بن عمرو الکوفی ہے۔ اس نے کسی صحابی سے کوئی روایت نہیں سنی۔
یحییٰ بن سعيد القطان فرماتے ہیں :
”یہ ناقابل اعتبار ہے۔“
جوزجانی اپنی ضعفاء میں لکھتے ہیں : ”یہ بد مذہب تھا۔“
ابن حزم نے اس پر ہی اعتراض کیا ہے۔
شعبہ نے اس کی روایت ترک کر دی تھی۔
مسلم نے بھی اس کی روایت نہیں کی۔ [ميزان ص 192 ج4 ]
اس منہال کو اگر ثقہ بھی تسلیم کر لیا جائے۔ تب بھی یہ روایت قابل قبول نہ ہو گی۔ اس لئے کہ اس نے اوپر کے راوی بیان نہیں کئے۔ اس طرح ایک تابعی اور ایک صحابی سند سے غائب ہے۔ اور جس روایت سے دو راوی چھوٹ جائیں اسے اصطلاح محدثین میں معضل کہا جاتا ہے اور معضل روایت بدترین درجہ کی ضعیف سمجھی جاتی ہے۔
عبدالغفار بن قاسم
اس منہال سے اس روایت کو نقل کرنے والا عبدالغفار بن قاسم ہے۔ اس کا حال بھی ملاحظہ ہو۔
امام ذہبی میزان میں لکھتے ہیں : ”عبدالغفار بن قاسم :
اس کی کنیت ابومريم الانصاری ہے۔“ ذہبی کہتے ہیں : ”یہ ثقہ نہیں ہے بلکہ رافضی ہے۔“
امام علی بن المدینی جو فن رجال میں بخاری مسلم، ابوداؤد اور نسائی کے استاد ہیں فرماتے ہیں۔ ”یہ شیعوں کا رئیس (مجتہد ) تھا، احادیث وضع کیا کرتا تھا۔“
یحییٰ بن معین فرماتے ہیں :
”یہ کچھ نہیں ہے۔ “امام بخاری کہتے ہیں :
”یہ محدثین کے نزدیک قوی ہیں۔“
امام شعبہ کا بیان ہے کہ میں نے ابو مریم کی ایک بات پر سماک الحنفی کو یہ الفاظ کہتے سنا : ”اللہ کی قسم تو جھوٹ بولتا ہے۔“
عبد الواحد بن زیاد کا بیان ہے کہ ابو مریم نے ایک روز لوگوں کے سامنے قرآن کی ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے اعمال دیکھنے کے لئے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ میں نے اس سے کہا : ”تو جھوٹ بولتا ہے، وہ ڈھیٹ بن کر بولا کہ تو مجھے جھٹلاتا ہے۔“
ابوداؤد طیالسی کا بیان ہے کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابو مریم جھوٹا ہے میں اس سے ملا ہوں اور میں نے اس کی باتیں سنی ہیں۔ اس کا نام عبدالغفار بن قاسم ہے۔
امام احمد بن حنبل کا ارشاد ہے کہ ہم ابو عبیدہ سے احادیث سننے جایا کرتے تھے۔ لیکن جب کبھی وہ ابو مریم کی روایت بیان کرنا چاہتے تو لوگ شور مچا دیتے تھے کہ ہم اس کی کوئی روایت سننا نہیں چاہتے۔
نیز امام احمد یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی برائیوں میں روایات بیان کیا کرتا تھا۔
ابو حاتم اور نسائی کہتے ہیں :
”یہ متروک الحدیث ہے۔“
عفان نے بھی اس کی روایت قبول نہیں کی۔
امام شعبہ نے اس سے ابتدا میں روایات سنی تھیں لیکن جب ان پر اس کا جھوٹ کھلا تو انہوں نے اس سے روایت لینا چھوڑ دیا۔ ابو مریم 120ھ تک زندہ رہا. [ميزان الاعتدال س 640 ج2 ]
ان تمام بیانات سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ یہ روایت عبد الغفار بن قاسم ابو مریم الانصاری کی وضع کردہ ہے اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان بڑھانے کے لئے یہ روایت وضع کی۔ لیکن اپنی اس موضوع کہانی میں چند ایسے نقائص چھوڑ دیئے کہ اگر اس روایت کو بلحاظ سند صحیح بھی فرض کر لیا جائے۔ تب بھی معنوی اعتبار سے یہ درست نہ ہو گی۔ غالباً اسی لئے سید صاحب نے یہ جملہ تحریر فرمایا کہ اس کے موضوع ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔