قرض کا حکم
قرض عام لوگوں کے ہاں ادھار پیسے دینے کا نام ہے، یہ سنت ہے اور باعث اجر۔ یہ اس آیت قرآنی «وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» [البقرة: 195]
(اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے) کے عموم میں داخل ہے۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرض مانگ لیا کرتے تھے۔ یہ قرض لینے والے کے لیے مباح ہے اور قرض دینے والے کے لیے سنت، لیکن قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بعد میں قرض دار کو احسان جتلا کر تکلیف نہ دے۔ مثلاً کہے: میں نے تیرے ساتھ احسان کرتے ہوئے تجھے قرض دیا اور تم مجھے اس کا اچھا بدلہ دے رہے ہو !
ارشاد ربانی ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ» [البقرة: 264]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے صدقے احسان رکھنے اور تکلیف پہنچانے سے برباد مت کرو۔“
جہاں تک قرض لکھنے کا معاملہ ہے تو اگر قرض، قرض دینے والے کے اپنے مال سے ہو تو پھر اس آیت:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282] کے عموم کے تحت اسے لکھ لینا بہتر ہے تا ہم لکھنا ترک بھی کیا جاسکتا ہے، خصوصاً جب وہ ایک عام اور معمولی چیزیں ہوں جن کی لوگوں کی نظر میں کوئی اتنی اہمیت نہیں ہوتی اور وہ انہیں نہیں لکھتے۔ اگر وہ کسی دوسرے کے مال سے قرض دے رہا ہو، مثلاً اس کے پاس کی یتیم کا مال ہو اور وہ اس کا نگران اور سرپرست ہو، پھر کسی مصلحت کے تحت اس کے مال سے کسی کو قرض دینا پڑ جائے تو پھر اس کے لیے اسے لکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ لکھنا اس یتیم کے مال کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ» [الأنعام: 152]
”اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔“
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/244]