قرض میں شرط
سوال: ایک آدمی نے کسی آدمی سے کوئی مال بطور قرض لیا، لیکن قرض دینے والے نے یہ شرط لگائی کہ قرض لینے والا اس کے بدلے اسے زرعی زمین کا ایک رقبہ بطور رہن دے، وہ اس میں فصل اگائے گا، اور اس کا سارا غلہ یا آدھا خود رکھ لے گا اور آدھا اسے دے دے گا تاآنکہ مقروض وہ سارا مال اسی طرح واپس کر دے جس طرح اس نے اسے دیا تھا، پھر قرض دینے والا وہ زمین اسے واپس لوٹا دے گا۔ اس مشروط قرض کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: قرض کا مقصد قرض لینے والے پر نرمی اور احسان کرنا ہے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کو مطلو ب اور اس کی پسندیدہ ہے، کیونکہ یہ اس کے بندوں پر احسان ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
«وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» [البقرة: 195]
”اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“
یہ احسان اور نر می قرض دینے والے کے لیے جائز، بلکہ مستحب ہے اور
قرض لینے والے کے لیے جائز اور حلال، نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے ایک اونٹ ادھار لیا اور اس کو اس سے بہتر لوٹایا۔ [صحيح مسلم 1600/118]
جب یہ عقد یعنی قرض، عقود ارفاق اور احسان سے ہے تو اسے عقد معاوضہ اور منافع (دنیوی مادی منافع) میں تبدیل کرنا جائز نہیں کیونکہ اس طرح یہ عقد ارفاق اور احسان سے نکل کر بیع اور معاوضات کے باب میں داخل ہو جائے گا، اس لیے آپ اس معاملے میں واضح فرق محسوس کریں گے کہ ایک نے آدمی دوسرے سے کہا: میں نے تجھے یہ دینار دوسرے دینار کے بدلے ایک سال کی مدت تک ادھار بيچا، یا میں نے تجھے اس دینار کے بدلے یہ دینار بیچا، اور وہ دونوں ایک دوسرے کو دینے سے پہلے ہی جدا جدا ہو گئے، ان دونوں صورتوں میں بيع حرام ہوگی اور یہ سود ہوگا، لیکن اگر اس نے اس کو ایک دینار بطور قرض دیا اور دوسرے نے ایک مہینے یا ایک سال بعد وہ واپس کر دیا تو یہ جائز ہوگا حالانکہ قرض دینے والے نے اس کا عوض ایک سال بعد لیا کیونکہ یہاں ارفاق اور نرمی کا پہلو موجود ہے، اس بنیاد پر قرض دینے والا اگر قرض لینے والے پر کسی مادی منفعت کی شرط لگاتا ہے تو وہ قرض کے ساتھ اس کے اصلی موضوع سے، جو نرمی ہے، نکل جاتا ہے اور اس کا یہ قرض دینا حرام ہوگا۔ اہل علم کے ہاں ایک مشہور قاعدہ ہے: ”ہر وہ قرض جو فائدہ لاتا ہے، وہ سود ہے۔“
بنا بریں قرض دینے والے کے لیے قرض لینے والے پر یہ شرط عائد کرنا جائز نہیں کہ وہ اسے زمین دے اور وہ اس میں کھیتی کرے، چاہے وہ قرض دار کو اس سے حصہ بھی کیوں نہ دے کیونکہ اس نے مقروض سے فائدہ لیا ہے اور قرض اپنے اصلی موضوع، ارفاق اور احسان سے نکل چکا ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 7/236]